چکوال میں پنجاب کی صوبائی اسمبلی کی ایک نشست پر ہونے والے ضمنی انتخاب میں حکمران جماعت مسلم لیگ ن کے امیدوار کامیاب ہوئے ہیں لیکن سخت گیر مذہبی موقف رکھنے والی مذہبی و سیاسی جماعت 'تحریک لبیک یا رسول' کے امیدوار نے ایک بار پھر قابل ذکر ووٹ لے کر اس تاثر کو تقویت دی ہے کہ اس جیسی بعض دیگر کٹڑ مذہبی نظریات کی حامل جماعتیں آئندہ انتخابات میں بڑی جماعتوں کا ووٹ بینک متاثر کر سکتی ہیں۔
لیگی قانون ساز لیاقت علی خان کے انتقال سے خالی ہونے والی حلقہ پی پی 20 چکوال ون کی نشست پر منگل کو پولنگ ہوئی تھی جس میں مسلم لیگ ن کے حیدر سلطان نے 75 ہزار سے زائد ووٹ لیے۔ دوسرے نمبر پر پاکستان تحرک انصاف کے امیدوار طارق افضل تھے۔
پیپلزپارٹی نے بھی یہاں سے اپنا امیدوار کھڑا کیا تھا لیکن بعد میں انھوں نے اپنے کاغذات نامزدگی واپس لے لیے تھے۔
تحریک لبیک یا رسول اللہ کے ناصر عباس نے ساڑھے 16 ہزار ووٹ لیے اور انتخابی میدان میں تیسرے نمبر پر رہے۔
اس جماعت کے ایک امیدوار شیخ اظہر نے گزشتہ ستمبر میں سابق وزیراعظم نواز شریف کی خالی ہونے والی نشست پر ہونے والے ضمنی انتخاب میں بھی سات ہزار سے زائد ووٹ لیے تھے۔
لیکن قابل ذکر امر یہ تھا کہ اس حلقے میں پیپلز پارٹی کو محض 1400 جب کہ جماعت اسلامی کو صرف 592 ووٹ ملے تھے۔
غیر جانبدار حلقوں کا کہنا ہے کہ انتخابی سیاست میں سخت گیر موقف رکھنے والی مذہبی جماعتوں کے حصہ لینے سے جہاں انتہا پسندی کا عنصر غالب آنے کا خدشہ ہے وہیں مرکزی دھارے کی بڑی سیاسی جماعتوں کے ووٹ بینک پر بھی اثر پڑ سکتا ہے۔
سینیئر تجزیہ کار ڈاکٹر ہما بقائی اس خیال سے متفق تو ہیں لیکن ان کا کہنا تھا کہ ایسے عناصر معاشرے میں موجود ہیں اور اگر انھیں سیاست میں حصہ لینے سے روکا جائے تو یہ اپنے نظریات کا پرچار کرنے کے لیے قدرے خطرناک طریقہ اپنا سکتے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ عملی سیاست میں ان مذہبی جماعتوں کو موقع دے کر انھیں آئین اور پارلیمان کی حدود میں رکھا جا سکتا۔
اس جماعت کے کارکنان نے گزشتہ نومبر میں قانون سازوں کے حلف نامے میں ختم نبوت کی شق میں تحریف کے خلاف تین ہفتوں تک اسلام آباد کے فیض آباد میں دھرنا دیے رکھا تھا۔