وفاقی وزیر سعد رفیق نے کہا ہے کہ حکومت لاہور کے علاقے ماڈل ٹاؤن میں جون کے وسط میں پولیس کی فائرنگ سے 14 افراد کی ہلاکت کے خلاف عوامی تحریک کی طرف سے نامزد کردہ تمام افراد بشمول وزیراعظم اور وزیراعلیٰ پنجاب کے خلاف مقدمہ درج کروانے کے لیے تیار ہے۔
عوامی تحریک کے سربراہ طاہرالقادری کی طرف سے اپنی جماعت کے کارکنوں کے قتل میں 21 افراد کو نامزد کیا گیا تھا جن میں وزیراعظم نواز شریف اور وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے علاوہ وفاقی اور صوبائی وزراء کے نام شامل ہیں۔
جمعرات کو قومی اسمبلی کے اجلاس کے بعد حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کے ایک مرکزی رہنما اور وفاقی وزیر خواجہ سعد رفیق نے کہا تھا کہ ایف آئی آر کے اندراج سے پہلے ’’ہم نے طے کیا کہ نا ہم انٹرا کورٹ اپیل کریں گے، نا سپریم کورٹ سے رجوع کریں گے، دفاع کا جو ہمارا قانونی حق ہے اس کو بھی استعمال نہیں کریں گے۔‘‘
اُنھوں نے کہا کہ اگر اُنھیں مجرم قرار دیا جاتا ہے تو اقتدار سے علیحدہ ہو جائیں گے۔ ’’ہم قانونی طریقے سے گزریں گے اور ایسے (اچھی شہرت والے) افسران کا تقرر کیا جائے گا جن پر دوست دشمن کوئی اُنگلی نہیں اٹھا سکے گا۔‘‘
حال ہی لاہور کی ایک ذیلی عدالت نے عوامی تحریک کی طرف سے نامزد 21 افراد کے خلاف ’ایف آئی آر‘ درج کرنے کا حکم دیا تھا جس کے خلاف وفاقی وزراء نے لاہور ہائی کورٹ میں اپیل بھی کی تھی جسے مسترد کر دیا گیا۔
وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف اور وزیر برائے ریلوے خواجہ سعد رفیق نے ایک مرتبہ پھر تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اور عوامی تحریک کے سربراہ طاہر القادری سے اپیل کی وہ مذاکرات کی راہ نکالیں۔
خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ اگر دھرنا دینے والی جماعتوں نے تصادم کی راہ اختیار بھی کی تو حکومت ہر ممکن تحمل کا مظاہرہ کرے گی۔
’’ہم اگر بالغ نظری کا مظاہرہ کر رہے ہیں تو اُس کو ہماری کمزوری نا سمجھا جائے۔ ہم چاہتے ہیں کہ اس کا کوئی پرامن حل نکلے۔ ایک ایسا حل نکلے جس میں آئین اور قانون سر بلند ہو۔ اس میں کسی کی ذاتی انا کا مسئلہ نہیں ہے۔ وزیراعظم نے کل بھی کہا تھا کہ پارلیمان میں جو قراردادیں منظور ہوئی ہیں وہ اُن کے لیے نہیں بلکہ آئین کے تحفظ کے لیے منظور ہوئی ہیں۔‘‘
طاہر القادری اور عمران خان نے بدھ کو اعلان کیا تھا کہ حکومت سے اب مزید مذاکرات نہیں کیے جائیں گے۔