پاکستان کے نو منتخب وزیرِ اعظم راجہ پرویز اشرف نے صدر آصف علی زرداری کے خلاف بدعنوانی کا مقدمہ دوبارہ کھولنے کے لیے سوئس حکام کو خط نا لکھنے کا عندیہ دیا ہے، جس سے اس تاثر کو تقویت ملی ہے کہ حکومت اور عدلیہ کے درمیان محاذ آرائی کا ایک نیا دور جلد شروع ہونے والا ہے۔
سوئس حکام کو خط لکھنے سے انکار کرنے پر سپریم کورٹ حال ہی میں سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو عدالت کی حکم عدولی کی پاداش میں پارلیمان کی رکنیت کے لیے نا اہل قرار دے کر گھر بھیج چکی ہے۔
لیکن مقامی میڈیا میں ان اطلاعات کی اشاعت کے بعد کہ حکمران پیپلز پارٹی پارلیمان میں ایک نیا قانون متعارف کرانا چاہتی ہے جس کا مقصد عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کے مواخذے کی راہ ہموار کرنا ہے، قانونی حلقوں میں شدید تحفظات اور بے چینی کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
حکمران جماعت کے بانیوں میں شمار کیے جانے والے سینیئر سیاست دان اور پی پی پی سندھ کے سیکرٹری جنرل تاج حیدر نے تصدیق کی ہے کہ ملک کی عدلیہ کی تشکیل نو سے متعلق قانون سازی زیرِ غور ہے جس میں ضرورت پڑنے پر صدر مملکت کی طرح سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے مواخذے کی تجویز بھی شامل ہے۔
اُنھوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سینیٹ یا ایوان بالا کو ایسے اختیارات دینے سے متعلق مجوزہ تجاویز بہت عرصے سے زیر غور ہیں۔
’’یہ پورے عدالتی نظام کی تشکیل نو کی بات ہے جس میں صوبوں کا بھی اپنا کچھ اختیار اور نمائندگی ہونی چاہیئے۔ عوام کے مسائل کو بھی دیکھنا ہے۔ محترم چیف جسٹس جو ہیں وہ ہر قسم کے قانون سے اُوپر ہیں اور پارلیمنٹ میں صدر کا بھی مواخذہ ہوسکتا ہے تو یہ ایک سوچ آ رہی ہے کہ صلاحیت کے فقدان یا بدنظمی کی صورت میں پارلیمنٹ چیف جسٹس کا مواخذہ کیوں نہیں کر سکتی۔‘‘
تاج حیدر کہتے ہیں کہ مجوزہ تجویز کسی مخصوص چیف جسٹس کے لیے نہیں بلکہ اس کے ذریعے آئین میں یہ گنجائش پیدا کرنا مقصود ہے کہ کسی فرد واحد کو کلی اختیارات حاصل کرنے سے روکا جائے۔
اُن کے بقول نئی قانون سازی کا ایک مقصد اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ ایک دوسرے کو حاصل اختیارات کا احترام کریں۔
حکمران پیپلز پارٹی کے ان ارادوں سے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری بھی بظاہر پوری طرح باخبر ہیں کیونکہ وہ دو روز قبل حزب اقتدار کو بالواسطہ طور پر ایسے کسی اقدام سے باز رہنے کی تنبیہہ کرچکے ہیں۔
اسلام آباد میں ہفتہ کو ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ عدالتی اختیار استعمال کرتے ہوئے پارلیمان کی قانون سازی پر نظر ثانی کر سکتی ہے۔
’’میں انتہائی احترام کے ساتھ یہ کہہ سکتا ہوں کہ وہ (اراکینِ پارلیمان) آئین اور اسلام کے احکامات کے خلاف اور بنیادی حقوق سے متصادم کوئی قانون سازی نہیں کر سکتے۔ اگر ایسا کوئی قانون منظور کیا جائے تو سپریم کورٹ عدالتی نظرثانی کے اختیار کا استعمال کرتے ہوئے اس کا جائزہ لے سکتی ہے۔‘‘
ان کے بقول عدالتی نظر ثانی کا مقصد حکومتی عہدیداروں کی جانب سے اختیارات کے غلط استعمال کو روکنا اور شہریوں کے ساتھ آئین و قانون کے مطابق سلوک کو یقینی بنانا ہے۔
’’پارلیمان کی جانب سے آئین کے مطابق مفاد عامہ میں قانون سازی مقصود ہے تاکہ قوانین نافذ العمل بھی ہوں۔‘‘