حزب مخالف کے احتجاج اور تنقید کے باوجود حکمران جماعت مسلم لیگ ن نے انتخابی اصلاحات کا قانون قومی اسمبلی سے منظور کروائے جانے کے ایک روز بعد ہی عدالت عظمیٰ کی طرف سے نا اہل قرار دیے جانے والے نواز شریف کو ایک مرتبہ پھر اپنی جماعت کا صدر بھی منتخب کر لیا۔
منگل کو اسلام آباد میں اس جماعت کے کارکنوں کے اجلاس میں نواز شریف بلا مقابلہ صدر منتخب ہو گئے جس کے بعد اپنے خطاب میں انھوں نے ایک بار پھر اپنے خلاف عدالتی فیصلے کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اپنے اس موقف کو دہرایا کہ ملک میں حکمرانی کا حق ان کے بقول صرف عوام کے منتخب کردہ لوگوں کے پاس ہونا چاہیے اور اس میں خلل ڈالنے کی کسی کو اجازت نہیں ہونی چاہیے۔
"میں نے اس مقصد کے لیے گرینڈ نیشنل ڈائیلاگ کی تجویز پیش کی ہے اس کا نقطہ یہی ہے کہ جمہوری آئین رکھنے والی ایک جمہوری ریاست کے طور پر عوام کا حق حکمرانی بحال کیا جائے۔۔۔حکومت وہی کرے جسے عوام ووٹ دے۔ اقتدار میں آنے اور جانے والے دروازے کی کنجی صرف 20 کروڑ عوام کے پاس ہو۔ قانونی موشگافیوں کے ذریعے عوامی مینڈیٹ کی توہین نہ کی جائے۔"
سابق وزیراعظم کی طرف سے جمہوری عمل کے لیے وسیع تر قومی مکالمے کی اس تجویز کو بظاہر ملک کی سیاسی جماعتوں کی پذیرائی ملنا مشکل دکھائی دیتا ہے جس کی وجہ انتخابی اصلاحات کے مسودہ قانون کی منظوری کے وقت اور اس کے بعد حزب مخالف کی طرف سے اس پر کی جانے والی تنقید ہے۔
قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے منگل کو ذرائع ابلاغ سے گفتگو میں کہا کہ حکومت نے یہ قانون صرف ایک شخصیت کو فائدہ پہنچانے کے لیے منظور کروایا اور ایسے قوانین کا مستقبل کچھ اتنا تابناک نہیں ہوا کرتا۔
حزب مخالف کی دوسری بڑی جماعت پاکستان تحریک انصاف اور عوامی مسلم لیگ نے اس قانون سازی پر شدید تنقید کرتے ہوئے اسے سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا عندیہ بھی دیا ہے۔
قانون سازی پارلیمان کا کام ہے اور اس کی طرف سے منظور کیے جانے والے کسی بھی قانون کا سپریم کورٹ میں چیلنج کیے جانے سے اس کے مستقبل پر کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں، اس بارے میں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر کامران مرتضیٰ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ اگر یہ قانون سازی آئین سے متصادم ہو تو اس پر عدالت عظمیٰ اپنی رائے دے سکتی ہے۔
"کوئی بھی چیلنج کرنا چاہیے اس پر کوئی قدغن نہیں اور سیاسی جماعتیں جب چیلنج کرتی ہیں تو اس کے وزن میں اضافہ ہو جاتا ہے کیونکہ وہ ایک شخص نہیں ہوتا ایک جماعت ہوتی ہے۔ اسے پھر یہ ثابت کرنا ہو گا کہ اس (قانون سازی) دستور کی کسی چیز کے منافی ہے۔۔۔سپریم کورٹ اس کو آئین کے منافی تو قرار دے سکتی ہے مگر اس کو معطل نہیں کر سکتی۔"
ان کے بقول اس وقت معاملات قانونی سے زیادہ سیاسی ہیں جو کہ اچھائی کی طرف جاتے نظر نہیں آتے۔
سیاسی امور کے سینیئر تجزیہ کار احمد بلال محبوب بھی اس تاثر سے اتفاق کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ سیاسی جماعتوں، حکومت، فوج اور اسٹیبلیشمنٹ کے درمیان چینلجز پر گفتگو ضروری ہے لیکن موجودہ صورتحال میں اس کے امکانات زیادہ روشن نہیں۔
"حقائق یہ ہیں کہ ہم انتخابی سال میں داخل ہو چکے ہیں اور ہر سیاسی جماعت اس انتخابی دوڑ میں ہے اور وہ پوائنٹ سکورنگ کی کوشش کر رہی ہے اور اکٹھے بیٹھنے کا امکان تو مجھے بہت ہی کم نظر آتا ہے۔"
حکومتی عہدیداران حزب مخالف کی اس تنقید کو رد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس نئے قانون سے ملک میں انتخابی عمل اور جمہوریت کی مضبوطی کی راہ ہمواہ ہو گی۔
وفاقی وزیر قانون زاہد حامد نے منگل کی شام ایک نیوز کانفرنس سے خطاب میں کہا کہ نئے قانون میں شامل شق 2014ء سے زیر غور تھی اور اس بارے میں رائے بھی مانگی گئی تھی۔
انھوں نے بعض سیاسی و مذہبی جماعتوں کی طرف سے سامنے آنے والے ان تحفظات کو بھی مسترد کیا جن میں کہا گیا تھا کہ نئے اصلاحاتی بل میں ختم نبوت سے متعلق قانون میں کچھ ردوبدل کیا گیا۔
وزیر قانون نے کہا کہ یہ تاثر اس قانون کو متنازع بنانے کی کوشش ہے اور ان کے بقول ختم نبوت سے متعلق قطعاً کوئی تبدیلی نہیں کی گئی۔