حزب اختلاف کی جماعت مسلم لیگ (ن) کی مرکزی مجلس عاملہ کے پیر کو اسلام آباد میں ہونے والے اجلاس میں ایک مرتبہ پھر وزیراعظم یوسف رضا گیلانی سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
جماعت کے صدر نواز شریف نے ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس اجلاس میں واضح فیصلہ کیا گیا ہے کہ ’’سپریم کورٹ کا حکم مانو، وزارت عظمیٰ چھوڑو، ورنہ احتجاجی تحریک کا سامنا کرو‘‘۔
اُنھوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) نے دیگر سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی کے ساتھ رابطے کر کے حکومت کے خلاف تحریک چلانے کا اٹل فیصلہ کر لیا ہے۔
’’پیھچے لوٹنے اور دیکھنے کا وقت نہیں ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ میرے جیسے بندے کا (باہر نا نکلا) یہ بالکل غداری کے مرتکب ہے۔‘‘
نواز شریف نے کہا کہ عدالت عظمیٰ کی طرف سے مجرم قرار دیئے جانے کے بعد یوسف رضا گیلانی وزارت عظمٰی کی اہلیت کھو چکے ہیں اور اب حکومت کے پاس ماسوائے عدلیہ کے فیصلے پر عمل درآمد کے اور کوئی راستہ نہیں ہے۔
’’ہم احتجاجی تحریک اسی ہفتے میں شروع کر رہے ہیں، آج سے شروع ہو رہی ہے ایوان کے اندر اور آپ دیکھیں گے کہ (ایوان) سے باہر بھی۔۔۔۔ اس میں سب پاکستانیوں کو دعوت دیتا ہوں، چاہے ان کا تعلق کسی بھی پارٹی سے ہو۔‘‘
نواز شریف کے احتجاجی تحریک کے اعلان سے چند گھنٹے قبل اسلام آباد میں ایک تقریب کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم گیلانی کا کہنا تھا کہ حزب اختلاف محض سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے ان سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
’’کوئی آئینی مسئلہ نہیں ہے پاکستان میں۔ یہ صرف شریف عدالت راؤنڈ میں بیٹھ کر (عدالتی فیصلے کی) تشریح کر رہے ہیں، ان کو صرف میں یہ کہوں گا کہ آپ نے پہلے بھی بہت غلطیاں کی ہیں‘‘۔
اُنھوں نے نواز شریف کو ہدف تنقید بناتے ہوئے کہا کہ ’’اڈیالہ سے جدہ تک کا سفر، اتنا طویل سفر کس عدلیہ کے فیصلے کے تحت ہوا تھا وہ قوم آپ سے پوچھنا چاہتی ہے۔‘‘
وزیراعظم گیلانی نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) صبر و تحمل کا مظاہرہ کرے اور عدالت عظمیٰ کے حتمی فیصلے کا انتظار کرے۔
’’اب وہ (نواز شریف) سوچ رہے کہ لانگ مارچ کریں گے ... وہ لانگ مارچ تو کیا شارٹ مارچ بھی نہیں کر سکتے۔‘‘
تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ حکومت مخالف احتجاجی تحریک کی کامیابی کے لیے موجودہ حالات میں نواز شریف کو حزب اختلاف کی دیگر سیاسی جماعتوں بشمول عمران خان کی تحریک انصاف کی حمایت کا حصول بظاہر ممکن دکھائی نہیں دیتا کیوں کہ یہ پارٹیاں مسلم لیگ (ن) کو اب بھی پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت کی ’’فرینڈلی اپوزیشن‘‘ قرار دیتی ہیں۔
اُدھر مسلم لیگ (ن) سے تعلق رکھنے والے اراکینِ قومی اسمبلی نے احتجاجاً بازوؤں پر سیاہ پٹیاں باندھ کر پیر کی شام ہونے والے اجلاس میں شرکت کی اور جوں ہی حکومتی رہنماؤں نے تقاریر کی کوشش کی تو اُنھوں نے شور و غل مچانا شروع کر دیا۔
اپوزیشن جماعت کا موقف ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں مسٹر گیلانی وزارتِ عظمیٰ کا عہدہ کھو بیٹھے ہیں، اس لیے اُن کی حکومت کی بھی کوئی آئینی حیثیت نہیں۔
وزیر اعظم گیلانی قومی اسمبلی کے اجلاس میں تو شریک نہیں ہوئے، لیکن اُنھوں نے سینیٹ کے اجلاس سے خطاب کیا۔