نئے صوبوں کے قیام کے معاملے پر بحث میں تیزی دیکھنے میں آئی ہے اور وفاقی وزیر اطلاعات و نشریا ت فردوس عاشق اعوان نے کہا ہے کہ کسی صوبائی اسمبلی میں بھی نیا صوبہ بنانے کے مطالبات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
”نئے صوبوں کے قیام کا اختیارصوبوں میں رہنے والے عوام کے پاس ہے جو اپنے منتخب نمائندوں کے ذریعے منتخب ایوانوں میں اپنی آواز پہنچاتے ہیں۔ پنجاب میں اس حوالے سے ایک آغاز کیا گیا ہے اگر سندھ ، بلوچستان یاخیبر پختون خواہ کے عوامی نمائندے ایسا اقدام کرتے ہیں تو بطور وفاقی حکومت کے ہم ایسی جماعتوں اوراُن کے نمائندوں کی آواز کو کیسے نظر انداز کر سکتے ہیں۔“
وفاقی وزیر اطلاعات نے ہفتہ کو ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو میں یہ بیان ایسے وقت دیا جب مرکز میں اُن کی ایک اتحادی جماعت مسلم لیگ ق نے جنوبی پنجاب کے اضلاع پر مشتمل ایک علیحدہ صوبہ بنانے سے متعلق ایک قراداد پنجاب اسمبلی میں پیش کررکھی ہے ۔
مسلم لیگ (ق) کے پنجاب اسمبلی میں پارلیمانی لیڈ ر چوہدری ظہیرالدین نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ قرارداد میں جنوبی پنجاب کے اضلاع کی محرومیوں کو ذکر کیا گیا ہے ۔ اُنھوں نے کہا کہ پنجاب آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا صوبہ ہے اور انتظامی مرکز لاہور میں ہونے کی وجہ سے جنوبی پنجاب کے اضلاع کے لوگوں کو وہاں تک پہنچنے میں دشواریوں کے علاوہ یہ شکایت بھی ہے کہ اُن کے مسائل پر اُتنی توجہ نہیں دی جارہی ہے جتنی دی جانی چاہیئے۔
اُنھوں نے کہا کہ چھوٹے انتظامی یونٹ بنانے سے لوگوں کے مسائل کے حل میں مدد ملتی ہے اس لیے اُن کی جماعت نے جنوبی پنجاب کے صوبے کا مطالبہ کیا ہے ۔
پنجاب میں حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کا کہنا ہے کہ جنوبی پنجاب کو الگ صوبہ بنانے کی باتیں محض سیاسی نعر ہ ہے ۔ مسلم لیگ (ن) کے ایک ترجمان صدیق الفاروق نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اُن کی جماعت نسلی اور لسانی بنیادوں پر صوبوں کی تقسیم کی ہر گز حامی نہیں ہے ۔
صدیق الفاروق نے کہا کہ ہے اگرانتظامی بنیادوں پر نئے صوبے بنانے پر اتفاق رائے کے لیے مذاکرات کیے جاتے ہیں تو اُن کی جماعت اس کے لیے تیار ہے ۔ اُنھوں نے کہا ہے مسلم لیگ (ن ) یہ سمجھتی ہے کہ پنجاب کی تقسیم دوسرے صوبوں کی تقسیم پر منتج ہو سکتی ہے اس لیے اُن کی جماعت نہیں چاہتی کہ دوسرے صوبے عوامی خواہشات کے منافی تقسیم ہوں۔
آئینی ماہرین کا کہنا ہے کہ آئین کے تحت نئے صوبے کی تشکیل کاعمل نہایت پیچیدہ ہے ۔ ماہر قانون ایس ایم ظفر نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ ”پہلے قومی اسمبلی اور پھر سینٹ سے دو تہائی سے منظور ہونے کے بعد جس صوبے کی تقسیم مقصود ہے اُسے صوبائی اسمبلی سے بھی دو تہائی کی اکثریت درکار ہوتی ہے ۔ اس لیے ایسا لگ رہاہے کہ سیاست زیادہ چل رہی ہے اور آئینی سوچ بہت کم ہے ۔“
ایس ایم ظفر نے کہا کہ صوبوں کے قیام کے لیے آئین میں درج طریقہ کار کے مطابق موجودہ حالات میں قومی اسمبلی ، سینیٹ اور کسی صوبے میں دو تہائی اکثریت کی حمایت حاصل کرنا بظاہربہت مشکل ہے ۔