پاکستان پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت نے حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ (ن) کی طرف سے ملک میں نئے صوبوں کی تشکیل پر قومی اتفاق رائے پیدا کرنے کے لیے ”نیشنل کمیشن“ کے قیام کی تجویز کو ”غیر سنجیدہ “ قرار دے کر مسترد کردیا ہے۔
رواں ہفتے ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں نواز شریف کی جماعت نے پاکستان میں انتظامی بنیادوں پر نئے صوبوں کی تشکیل کی حمایت کرتے ہوئے تجویز دی تھی کہ ملک کے دستور میں اس مقصد کے حصول کے لیے ضروری ترامیم کی خاطرملک میں اتفاق رائے پیدا کرنے کے لیے ایک ”قومی کمیشن“ بنایا جائے۔
اجلاس میں حزب اختلاف کی جماعت کی قیادت نے لسانی بنیادوں پر پنجاب میں سرائیکی صوبہ بنانے کی حمایت کرنے پرالزام لگایا تھا کہ حکمران پیپلز پارٹی کی قیادت اس معاملے پر غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کررہی ہے اور محض سیاسی مقاصدکے لیے نئے صوبوں کا نعرہ لگا رہی ۔
لیکن وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے نئے صوبوں کی تشکیل کے لیے مسلم لیگ (ن) کی تجویز کو غیر سنجیدہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس ایشو پر بظاہر نواز شریف ابہام کا شکار ہیں کیونکہ وہ اب تک اپنا کوئی واضح موقف پیش نہیں کرسکے ہیں۔ اُن کے بقول مسلم لیگ(ن) کی قیادت کی تجاویز ہر روز بدلتی صورت حال کے ساتھ تبدیل ہو جاتی ہیں۔
”میاں صاحب اس حوالے سے ایک واضح موقف نہیں رکھتے ۔ کبھی وہ اپنی پارٹی کی کمیٹی بناتے ہیں کبھی وہ اس سوچ (نئے صوبوں کے قیام) کے ساتھ اپنے اختلاف کا اظہار کر تے ہیں اور کبھی وہ اس سوچ کی حمایت کرتے ہیں۔ وہ خود کنفویژ ن کا شکار ہیں اور جب وہ ذہنی طور پر اس معاملے پر ایک واضح موقف اختیار کرلیں گے تو حکومت اُن کی تجاویز پر سنجیدگی سے غور کرسکتی ہے۔ “
وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ حکومت قومی اہمیت کے اُمور پر اتفاق رائے پیدا کرنے کے لیے اس عمل میں عوام کی شمولیت اور خواہشات کا احترام کرتی ہے لیکن اُن کے بقول اس مقصد کے حصول کے لیے ماورائے آئین اقدامات کرنے یا پھر کسی سے ڈکٹیشن لینے کی بجائے پیپلز پارٹی آئینی و قانونی طریقہ کار اپنائے گی۔
پاکستان میں ان دنوں نئے صوبوں کی تشکیل پر سیاسی حلقوں اور ذرائع ابلاغ میں زور وشور سے بحث جاری ہے جس میں سرفہرست پنجاب کے سرائیکی زبان والے بعض جنوبی اضلاع پر مشتمل ایک نیا صوبہ بنانے کی تجویز ہے۔ لیکن صوبے میں حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) لسانی بنیادوں پر نئے صوبوں کے قیام کی سخت مخالفت کرتی ہے کیونکہ اس کے بقول ایسی تجاویز پاکستان کی سلامتی کو نقصان پہنچانے کے مترادف ہیں۔
آئینی ماہرین کے خیال میں نئے صوبوں کی تشکیل کے معاملے کو ملک کی تمام سیاسی جماعتیں بظاہر سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کررہی ہیں کیونکہ صوبہ بنانے کے لیے قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں دو تہائی اکثریت سے آئین میں ترمیم کے بغیر ایسا ممکن نہیں اور کیونکہ پنجاب اسمبلی میں مسلم لیگ (ن) کی عدد برتری کے پیش نظر ایسی کسی بھی آئینی ترمیم کی منظوری کے لیے اُس کی رضا مندی ناگزیر ہوگی۔