پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کا اسلام آباد میں حکومت مخالف دھرنا ایک ماہ سے زائد عرصے سے جاری ہے اور طبی ماہرین خدشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ وفاقی دارالحکومت میں اس اجتماع سے خصوصاً بچوں کی صحت کو خطرات لاحق ہو سکتےہیں۔
اس کی ایک تازہ مثال یہ ہے کہ ایک سال کے تعطل سے بچوں کو خسرے کی بیماری سے بچاؤ کی ویکسین کی مہم رواں ماہ شروع ہونا تھی لیکن حکام کے بقول اس دھرنے کی وجہ سے شہریوں کے معمولات زندگی مثاتر ہونے سے اب ارادہ ہے کہ اس کا آغاز آئندہ مہینے ہو گا۔
ضلعی انتظامیہ کے شعبہ صحت کے اعلیٰ عہدیدار ڈاکٹر حسن عروج نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ تقریباً تین لاکھ بچوں کو خسرے سے بچاؤ کی ویکسین دی جانی ہے۔ ان کے بقول اس کی وجہ شہر میں جاری ایک "غیر معمولی سرگرمی" ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ایک ہی جگہ پر اتنے سارے لوگوں کے ایک ساتھ رہنے کی وجہ سے بھی مختلف امراض پھیلنے کا خدشہ ہوسکتا ہے اور ان میں اگر ایسے بچے بھی شامل ہیں جنہیں بیماریوں سے بچاؤ کی حفاظتی ویکسین دی جانی تھی اور نہیں دی گئی تو اس سے بھی بچوں کے لیے طبی مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔
" ایک آبادی ہے جو اسلام سے باہر سے یہاں آئی اور یہ سب لوگ ایک کیمپ کی شکل میں یہاں بیٹھی ہوئی ہے اب ان کی صفائی ستھرائی کے حوالے سے بہت سے بیماریاں پھیل سکتی ہیں۔ پھر ایسے بچہ جس کی ویکیسن ہونا تھی لیکن نہیں ہوئی اور پھر اس طرح کے حالات میں امکانات ہوتے ہیں کہ یہ بیماریوں کے پھیلنے کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتے ہیں۔
تقریباً 36 دنوں سے تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے کارکن وزیراعظم سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کرتے ہوئے پارلیمان کے سامنے دھرنا دیے ہوئے بیٹھے ہیں۔ حکومت اور پارلیمان میں موجود دیگر سیاسی جماعتیں اس مطالبے کو مسترد کر چکی ہیں۔
سیاسی حلقوں کے علاوہ مبصرین بھی سیاسی کشیدگی میں طوالت کو ملک کے لیے سودمند قرار نہیں دے رہے۔
گزشتہ عام انتخابات میں دھاندلی کے الزامات پر اسلام آباد میں محاذ آرائی تو جاری ہی ہے لیکن متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین کی طرف سے پیش کردہ نئے صوبوں کے قیام کی تجویز کی بعض حلقوں کی طرف سے مخالفت پر سول سوسائٹی نے ہفتہ کو کراچی میں احتجاج کیا۔
اس احتجاج کی قیادت کرتے ہوئے ایم کیو ایم کی رہنما خوش بخت شجاعت نے کہا کہ ملک میں ترقی اور عوام کی فلاح کے لیے نئے صوبوں کا قیام ضروری ہے اور اس کی مخالفت عوام کے بنیادی مسائل میں رکاوٹ کے مترادف ہے۔
"اس پاکستان میں رہتے ہوئے اس کے وفاق کو اگر مضبوط کرنا ہے تو انتظامی یونٹس بنانا ناگزیر ہے۔ سندھ میں کراچی میں اور پورے پاکستان میں بنایا ناگزیر ہے، تاکہ عوام کو سہولتیں مل سکیں اور یہ جو ہم کہہ رہے ہیں یہ ہمارا جمہوری حق بھی ہے اور آئینی حق بھی ہے۔"
سندھ میں برسر اقتدار پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اپنے حالیہ بیانات میں کہہ چکے ہیں کہ سندھ کو کسی صورت تقسیم نہیں ہونے دیا جائے گا۔ ان کی جماعت کے ایک سینیئر رہنما منظور وسان نے ہفتے کو ایک بار پھر اپنے قائد کے موقف کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ ان کی جماعت سندھ کی تقسیم کی کسی بھی کوشش کی مخالفت کرے گی۔
پاکستان میں اس وقت چار صوبے ہیں اور نئے صوبوں کی تشکیل کے بارے میں اس سے پہلے بھی مطالبات سامنے آتے رہے ہیں۔ بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ آبادی کے بڑھتے ہوئے دباؤ اور وسائل کی منصفانہ تقسیم کے لیے انتظامی یونٹس ایک اچھا قدم ثابت ہو سکتا ہے۔