پاکستان میں پارلیمینٹ کے ایوان زیریں یعنی قومی اسمبلی میں معمولی اکثریت کے ساتھ قائم حکمران اتحاد میں اختلافات کھل کر سامنے آ گئے ہیں۔ اتحادی جماعت بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) نے بجٹ اجلاس میں حکومت کو ووٹ نہ دینے کا اعلان کیا ہے۔
اس اعلان کے بعد قومی اسمبلی میں ان ہاؤس تبدیلیوں کی باز گشت سنائی دے رہی ہے۔
جمعے کے روز جب اپوزیشن رہنماؤں کو ایوان میں بات کرنے کی اجازت نہ ملی تو حزب اختلاف کی جماعتوں نے پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر مشترکہ پریس کانفرنس کرنے کا اعلان کیا۔ صحافیوں کو حیرت اس وقت ہوئی جب بلاول بھٹو، شاہد خاقان عباسی اور دیگر اپوزیشن رہنماء پریس روسٹرم پر آئے تو حکومتی اتحادی سردار اختر مینگل بھی ان کے ہمراہ تھے۔
سردار اختر مینگل کی جماعت بی این پی مینگل نے اپنے چھ مطالبات کی بنیاد پر وزارت عظمیٰ اور اسپیکر قومی اسمبلی کے انتخاب میں تحریک انصاف کے امیدواروں کو ووٹ دیے تھے۔ تاہم یہ باقاعدہ طور پر حکومت میں شامل نہیں ہوئے تھے اور آزاد اراکین کی نشستوں پر بیٹھتے تھے۔
بی این پی مینگل کے مطابق حکومت کی جانب سے تحریری یقین دہانیوں کے باوجود وعدوں پر عمل نہیں ہوا جس پر وہ نالاں ہیں اور اب باقاعدہ طور پر اپوزیشن اتحاد میں شامل ہو رہے ہیں۔
اپوزیشن جماعتوں کی کل جماعتی کانفرنس
اپوزیشن جماعتوں نے عید کے بعد کل جماعتی کانفرنس بھی بلا رکھی ہے جس میں حکومت مخالف تحریک کی حکمت عملی پر غور ہو گا۔ اس اے پی سی میں سردار اختر مینگل کو بھی شرکت کی دعوت دی گئی ہے جو انہوں نے قبول کر لی ہے۔
بی این پی مینگل کے سیکرٹری جنرل سینیٹر جہاں زیب جمال دینی نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ تحریک انصاف کے ساتھ حکومت سازی میں تعاون اپنے چھ نقاط پر عملدرآمد کی یقین دہانی پر کیا تھا جن میں سے کسی ایک پر بھی عمل نہیں کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے حکومت کی مشروط حمایت کی تھی جسے جاری رکھنے سے اب قاصر ہیں۔
سیاسی تجزیہ کار اور پارلیمانی ماہرین کا خیال ہے کہ بی این پی کا حکومت کی حمایت سے دستبردار ہونا بجٹ منظوری کے علاوہ دیگر قانون سازی میں بھی حکومت کی مشکلات میں اضافہ کر سکتا ہے۔
بجٹ اگرچہ سادہ اکثریت سے منظور ہوتا ہے لیکن معمولی عددی اکثریت رکھنے والی حکومت اگر بجٹ منظوری کے دن اپنی اکثریت ثابت نہ کر پائی تو وہ حکومت کرنے کا اخلاقی جواز کھو بیٹھے گی۔
بجٹ منظوری کے دوران کسی ایک کٹوتی کی تحریک پر حکومت اپنے اراکین کی ایوان میں موجودگی کو پابند نہ رکھ سکی اور اپوزیشن نے اپنی اکثریت ثابت کر دی تو تحریک انصاف کو سبکی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
پیپلز پارٹی کے سربراہ بلاول بھٹو نے بھی حال ہی میں اپنی ایک پریس کانفرنسں میں کہا تھا کہ حکومت اپنے بوجھ سے گرنے جا رہی ہے کیونکہ سنا ہے کہ سردار اختر مینگل بجٹ میں ووٹ نہیں دے رہے۔
قومی اسمبلی میں نمبر گیم
حکومت اور اس کے اتحادیوں کی قومی اسمبلی میں عددی اکثریت کا جائزہ لیں تو 156 نشستیں رکھنے والی تحریک انصاف کو متحدہ قومی موومنٹ کے سات ارکان، پاکستان مسلم لیگ ق اور بلوچستان عوامی پارٹی کے پانچ، پانچ ارکان، گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کے تین، جمہوری وطن پارٹی اور عوامی مسلم لیگ کے ایک، ایک رکن کی حمایت حاصل ہے۔
172 کی عددی اکثریت کے ایوان میں 178 اراکین کی حمایت رکھنے والی تحریک انصاف کو اگرچہ بظاہر کوئی بڑا خطرہ لاحق نہیں ہے تاہم بجٹ منظوری سمیت ہر قانون سازی کے لیے حکومتی جماعت کو ایوان میں اکثریت ثابت کرنا ہو گی۔
دوسری طرف حکومت کی ایک اور اتحادی جماعت متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان بھی اپنے مطالبات پورے نہ ہونے کا شکوہ کر رہی ہے۔ ایم کیو ایم کے رہنما کنور نوید جمیل نے ایک ٹی وی ٹاک شو میں کہا کہ ہم نے وزیراعظم سے کئی بار ملاقات کی ہے لیکن پارٹی کے مطالبات نہیں مانے جا رہے۔
ان کا کہنا تھا کہ کراچی میں اگر محرومیوں کا یہی سلسلہ رہا تو ایم کیو ایم کچھ بھی سوچ سکتی ہے لیکن ہم پاکستان کو مشکلات کا شکار کرنا نہیں چاہتے اور ہر فیصلہ سوچ سمجھ کر کیا جائے گا۔
کنور نوید کا کہنا تھا کہ وہ حکومت کو کوئی ڈیڈ لائن نہیں دیں گے کیونکہ ان کی جماعت بلیک میلنگ پر یقین نہیں رکھتی لیکن جب ایم کیو ایم کو محسوس ہوا کہ مسائل حل نہیں ہو رہے تو وہ علیحدہ ہو جائیں گے۔
پاکستان مسلم لیگ بھی حکومت سے کچھ زیادہ خوش نہیں ہے اور چوہدری شجاعت حسین نے وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات کر کے حکومتی پالیسوں پر اپنے تحفظات سے آگاہ کیا۔
پارلیمانی ماہرین کہتے ہیں کہ ایسے حالات میں تحریک انصاف کے لئے ایوان کو چلانا اور اپوزیشن کی حمایت کے بغیر قانون سازی کرنا مشکل ہو گا۔ تجزیہ کاروں کے مطابق ایسی صورت حال میں حکومت اتحادی جماعتوں کی ناراضگی مول نہیں لے سکتی اور اسے عددی اکثریت برقرار رکھنے کے لئے اپنی جماعت کے اراکین کی ایوان میں سرگرم شمولیت یقینی بنانا ہو گی۔
حکومتی جماعت کے اہم رہنما اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے سردار اختر مینگل کی جانب سے بجٹ میں ووٹ نہ دینے کے بیان پر کہا کہ وہ اس حوالے سے جلد ان سے رابطہ کریں گے۔ جمعہ کے روز جب سردار اختر مینگل سے وائس آف امریکہ کے نمائندے نے پوچھا کہ حکومت کی جانب سے کوئی رابطہ کیا گیا ہے تو انھوں نے کہا کہ حکومت اپنے کاموں میں مصروف ہے۔
جمعہ کے روز حکومت کو ایوان بالا میں اس وقت شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا جب حزب اختلاف کی جماعتوں نے اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس بجھوائے جانے کے خلاف قرار داد کثرت رائے سے منظور کر لی۔
سینیٹ میں اپوزیشن جماعتیں اکثریت رکھتی ہیں۔ تاہم وزارت عظمیٰ کے انتخاب اور بجٹ منظوری کے لئے ایوان بالا میں ووٹنگ نہیں ہوتی۔ البتہ کسی بھی قانون سازی یا آئینی ترمیم کو سینیٹ کی منظوری کے بغیر عملی جامہ نہیں پہنایا جا سکتا۔