پاکستان کی آبادی میں ہر سال اندازاَ چالیس لاکھ افراد کا اضافہ ہو رہا ہے اور یہ تشویشناک شرح برقرار رہی تو ماہرین کے محتاط اندازوں کے مطابق 2050ء میں ملک کی آبادی بڑھ کر تقریباً 35 کروڑ ہوجائے گی۔
ان حالات میں عوام کو خوراک، پانی اور توانائی جیسی بنیادی سہولتوں کی فراہمی شہری انتظامیہ کے لیے انتہائی مشکل ہو چکی ہے۔
ملک کی تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی قومی معیشت پر مسلسل دباؤ اور غربت میں اضافے کا باعث بھی بن رہی ہے۔
پاکستان حالیہ برسوں کے دوران اقتصادی، سیاسی اور امن و امان کے سنگین مسائل سے دو چار رہا ہے جس کے باعث ناقدین کے بقول قومی ترقی میں کلیدی کردار ادا کرنے والے سماجی شعبوں پر حکومت مناسب توجہ دینے سے قاصر ہے۔
لیکن غیر ملکی ماہرین کہتے ہیں کہ دنیا کے کئی دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی سرکاری سطح پر روز اول سے خاندانی منصوبہ بندی کو بہت کم ترجیح دی گئی ہے۔
غیر سرکاری تنظیم پاپولیشن کونسل کے نائب صدر ڈاکٹر جان بن گریٹس کہتے ہیں کہ آبادی میں اضافے کی شرح کم کرنے کے لیے خاندانی منصوبہ بندی حکومت کی ترجیحات میں سرفہرست ہونی چاہیئے۔
’’اگر ہم نے 20 سال قبل خاندانی منصوبہ بندی میں سرمایہ کاری کی ہوتی تو میں سمجھتا ہوں ملک کی سیاسی و اقتصادی صورت حال آج مقابلتاً بہت بہتر ہوتی۔‘‘
ڈاکٹر بن گریٹس کہتے ہیں کہ آبادی میں اضافے کی بلند شرح کے باعث عوام کو بنیادی صحت، ڈھانچے اور تعلیم کی سہولتیں مہیا کرنے کی زیادہ تر سرکاری کوششیں مطلوبہ اہداف کے حصول میں ناکام ہیں۔
’’ملک میں بے روزگاری کی شرح بہت زیادہ ہے جس کی وجہ سے نوجوانوں کی ایک بہت بڑی تعداد کوشش کے باوجود روزگار سے محروم ہے اور یہ صورت حال سیاسی بے چینی کا سبب بنتی ہے۔‘‘
سماجی شعبے کے لیے وزیر اعظم کی مشیر خاص شہناز وزیر علی کہتی ہیں کہ خاندانی منصوبہ بندی کے اہداف حاصل کرنے کے لیے حکومت نے مختلف اقدامات کیے ہیں اور صوبوں کو اس وزارت کی منتقلی کے بعد آنے والے برسوں میں صورت حال مستحکم ہونے کی توقع ہے۔
’’خاندانی منصوبہ کے لیے پاکستان میں سیاسی عزم اور مالی وسائل کا ہمیشہ فقدان رہا ہے جس کی وجہ سے پیدائش کی شرح خطرناک حدوں کو چھو رہی ہے۔‘‘
ماہرین کا ماننا ہے کہ تعلیم کے فروغ اور خاندانی منصوبہ بندی کی بلند معیار سہولتوں کی فراہمی سے مانع حمل کی حوصلہ افزائی ہو گی جس سے ہر سال 30 لاکھ غیر مطلوبہ حمل، زچگی کے دوران سینکڑوں خواتین اور ایک لاکھ نوزائیدہ بچوں کی اموات کو روکا جا سکتا ہے۔
پولیشن کونسل کے ڈاکٹر جان بنگریٹس کہتے ہیں کہ پاکستان میں آبادی میں اضافے کی شرح میں نمایاں کمی اس روایت کو فروغ دینے سے بھی آسکتی ہے کہ میاں بیوی دونوں مل کر فیصلے کریں کہ وہ کتنے بچے پیدا کرنا چاہتے ہیں۔
ان حالات میں عوام کو خوراک، پانی اور توانائی جیسی بنیادی سہولتوں کی فراہمی شہری انتظامیہ کے لیے انتہائی مشکل ہو چکی ہے۔
ملک کی تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی قومی معیشت پر مسلسل دباؤ اور غربت میں اضافے کا باعث بھی بن رہی ہے۔
پاکستان حالیہ برسوں کے دوران اقتصادی، سیاسی اور امن و امان کے سنگین مسائل سے دو چار رہا ہے جس کے باعث ناقدین کے بقول قومی ترقی میں کلیدی کردار ادا کرنے والے سماجی شعبوں پر حکومت مناسب توجہ دینے سے قاصر ہے۔
لیکن غیر ملکی ماہرین کہتے ہیں کہ دنیا کے کئی دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی سرکاری سطح پر روز اول سے خاندانی منصوبہ بندی کو بہت کم ترجیح دی گئی ہے۔
غیر سرکاری تنظیم پاپولیشن کونسل کے نائب صدر ڈاکٹر جان بن گریٹس کہتے ہیں کہ آبادی میں اضافے کی شرح کم کرنے کے لیے خاندانی منصوبہ بندی حکومت کی ترجیحات میں سرفہرست ہونی چاہیئے۔
’’اگر ہم نے 20 سال قبل خاندانی منصوبہ بندی میں سرمایہ کاری کی ہوتی تو میں سمجھتا ہوں ملک کی سیاسی و اقتصادی صورت حال آج مقابلتاً بہت بہتر ہوتی۔‘‘
ڈاکٹر بن گریٹس کہتے ہیں کہ آبادی میں اضافے کی بلند شرح کے باعث عوام کو بنیادی صحت، ڈھانچے اور تعلیم کی سہولتیں مہیا کرنے کی زیادہ تر سرکاری کوششیں مطلوبہ اہداف کے حصول میں ناکام ہیں۔
’’ملک میں بے روزگاری کی شرح بہت زیادہ ہے جس کی وجہ سے نوجوانوں کی ایک بہت بڑی تعداد کوشش کے باوجود روزگار سے محروم ہے اور یہ صورت حال سیاسی بے چینی کا سبب بنتی ہے۔‘‘
سماجی شعبے کے لیے وزیر اعظم کی مشیر خاص شہناز وزیر علی کہتی ہیں کہ خاندانی منصوبہ بندی کے اہداف حاصل کرنے کے لیے حکومت نے مختلف اقدامات کیے ہیں اور صوبوں کو اس وزارت کی منتقلی کے بعد آنے والے برسوں میں صورت حال مستحکم ہونے کی توقع ہے۔
’’خاندانی منصوبہ کے لیے پاکستان میں سیاسی عزم اور مالی وسائل کا ہمیشہ فقدان رہا ہے جس کی وجہ سے پیدائش کی شرح خطرناک حدوں کو چھو رہی ہے۔‘‘
ماہرین کا ماننا ہے کہ تعلیم کے فروغ اور خاندانی منصوبہ بندی کی بلند معیار سہولتوں کی فراہمی سے مانع حمل کی حوصلہ افزائی ہو گی جس سے ہر سال 30 لاکھ غیر مطلوبہ حمل، زچگی کے دوران سینکڑوں خواتین اور ایک لاکھ نوزائیدہ بچوں کی اموات کو روکا جا سکتا ہے۔
پولیشن کونسل کے ڈاکٹر جان بنگریٹس کہتے ہیں کہ پاکستان میں آبادی میں اضافے کی شرح میں نمایاں کمی اس روایت کو فروغ دینے سے بھی آسکتی ہے کہ میاں بیوی دونوں مل کر فیصلے کریں کہ وہ کتنے بچے پیدا کرنا چاہتے ہیں۔