وفاقی وزارت برائے منصوبہ بندی و ترقی کی طرف سے ملک کے ایوان زیریں یعنی قومی اسمبلی کو بتایا گیا کہ پاکستان کی کل آبادی کا 29.5 فیصد خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔
قومی اسمبلی میں تحریک انصاف کی رکن نفیسہ خٹک کے ایک سوال کے جواب میں منصوبہ بندی و ترقی کی وزارت نے ایک تحریری بیان جمع کروایا جس کے مطابق لگ بھگ ساڑھے پانچ کروڑ لوگ خط غربت سے نیچے زندگی گزار کر رہے ہیں۔
تحریری بیان کے مطابق اگر کوئی بالغ شخص ماہانہ 3030 روپے سے کم کماتا ہے تو اُسے خط غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔
ایک غیر سرکاری تنظیم پاپولیشن کونسل کی پاکستان میں سربراہ زبیا ستار کہتی ہیں کہ یہ اعداد و شمار یقیناً باعث تشویش ہیں اور اُن کے بقول کسی بھی پیچیدہ بیماری کی صورت میں غریب خاندانوں کی مشکلات مزید بڑھ جاتی ہیں۔
’’غریب لوگوں کا سب سے بڑا جو خرچ ہوتا ہے وہ تب ہوتا ہے جب غیر متوقع پر طور پر کوئی شدید بیمار ہو جائے۔۔۔۔ اگر کوئی خط غربت کے قریب زندگی گزار رہا ہے تو بھی مہنگے علاج کے سبب وہ بھی غربت میں شامل ہو جاتے ہیں۔‘‘
زیبا ستار کہتی ہیں کہ غریب خاندانوں کے بچوں کی تعلیم اور خوراک کی ضروریات بھی متاثر ہوتی ہیں۔
’’اپنے بچوں کی تعلیم کے لیے آپ اتنا پیسہ نہیں خرچ کر پاتے۔۔۔ بچے بھی زیادہ ہوتے ہیں اور خرچے بھی زیادہ ہوتے ہیں، تو اس بات کا امکان ہوتا ہے کہ (غریب خاندان) کے بچے اسکول سے باہر ہوں گے اور آئندہ نسل میں غربت مزید بڑھ جائے گی۔‘‘
زیبا ستار کا کہنا ہے کہ غربت کے پاکستان میں اثرات کی غمازی ایک حالیہ رپورٹ میں بھی ہوتی ہے جس کے مطابق ملک میں بچوں کی ایک بڑی تعداد غذائی قلت کا شکار ہے، جس سے پاکستان کی اقتصادی شرح نمو بھی متاثر ہو رہی ہے۔
حکومت کا کہنا ہے کہ خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والوں کے لیے کئی خصوصی پروگرام جاری ہیں جن میں بے نظیر انکم اسپورٹ پروگرام کے تحت غریب خاندانوں کو نقد رقم دینے کے علاوہ حال ہی میں مالی طور پر کمزور افراد کو صحت کی سہولتوں کی فراہمی کے لیے ہیلتھ کارڈ کا اجرا بھی شامل ہے۔