اسلام آباد —
پاکستان میں اعداد و شمار کے مطابق ہر 20 منٹ بعد زچگی کے دوران ایک حاملہ خاتون موت کے منہ میں چلی جاتی ہے اور ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کی ایک بڑی وجہ کم عمری کی شادیاں ہیں۔
آخری مرتبہ پانچ سال قبل کیے جانے والے ایک سروے کے مطابق پاکستان میں ایک تہائی لڑکیوں کی شادیاں 18 سال سے کم عمر ہی میں کر دی جاتی ہیں۔ جب کہ 15 سے 19 سال کی عمر میں لڑکیاں ماں بن جاتی ہیں یا پھر وہ حاملہ ہوتی ہیں۔
رواں ماہ اقوام متحدہ نے پہلی مرتبہ نوجوان لڑکیوں کا عالمی دن منایا اور اس موقع پر تنظیم کے پاکستان میں نمائندوں نے کہا کہ لڑکیوں کی تعلیم میں اضافے، ان کی اچھی صحت اور نومولود بچوں کی شرح اموات میں کمی کے لیے ضروری ہے کہ نو عمری کی شادیوں کو روکنے کے لیے مناسب اقدامات کیے جائیں۔
خواتین کی صحت کے بارے میں امریکی ادارہ برائے بین الاقوامی ترقی کے ایک منصوبے سے منسلک ڈاکٹر نبیلہ علی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ کم عمری کی شادی کے باعث لڑکیاں ناصرف اپنی تعلیم مکمل نہیں کر سکتیں بلکہ ان کے ہاں کم وزن کے بچے جنم لیتے ہیں جو ایک سال کی عمر تک پہنچنے سے پہلے ہی موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔
’’جب ایک نو عمر لڑکی حاملہ ہوتی ہے تو وہ خطرناک زچگی سمجھی جاتی ہے۔ وہ (لڑکی) اور اس کا ہونے والا بچہ اپنی غذائی ضرورت پورا کرنے کے حوالے سے ایک دوسرے سے مقابلہ کر سکتے ہیں۔ جس کا سبب یہ بنتا ہے یا تو زچگی کے دوران یا اس سے پہلے کمزوری کی وجہ سے ماں کی موت ہو جاتی ہے اور بچہ بھی موت کے منہ میں جا سکتا ہے۔‘‘
ڈاکٹر نبیلہ کہتی ہیں کہ وہ علاقے جہاں بچیوں کی تعلیم پر توجہ نہیں دی جاتی وہاں نو عمری کی شادیوں کا رجحان زیادہ ہے اور ان کے بقول نو عمری کی شادیوں کو روک کر غیر ضروری اموات سے بچا جا سکتا ہے۔
’’یہ ہی وجہ ہے کہ ہمارے ملک میں آبادی اتنی تیزی سے بڑھ رہی ہے کیوں کہ جب 14 یا 15 سال کی لڑکی کی شادی کر دی جاتی ہے تو 35 سال کی عمر میں پہنچنے تک اسے بہت زیادہ وقت مل جاتا ہے اور ایک کے بعد دوسرا بچہ پیدا ہو رہا ہوتا ہے جس کی وجہ سے ان میں خون کی کمی واقع ہو جاتی ہے اور وہ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہیں۔‘‘
ماہرین کا کہنا ہے کہ کم عمری کی شادیوں کی حوصلہ شکنی کے لیے ضروری ہے کہ اراکین پارلیمان قانون سازی کو موثر بنانے اور سول سوسائٹی کی نمائندہ تنظیمیں تعلیم و آگاہی میں اضافے کی مہم میں اپنا بھرپور کردار ادا کریں۔
آخری مرتبہ پانچ سال قبل کیے جانے والے ایک سروے کے مطابق پاکستان میں ایک تہائی لڑکیوں کی شادیاں 18 سال سے کم عمر ہی میں کر دی جاتی ہیں۔ جب کہ 15 سے 19 سال کی عمر میں لڑکیاں ماں بن جاتی ہیں یا پھر وہ حاملہ ہوتی ہیں۔
رواں ماہ اقوام متحدہ نے پہلی مرتبہ نوجوان لڑکیوں کا عالمی دن منایا اور اس موقع پر تنظیم کے پاکستان میں نمائندوں نے کہا کہ لڑکیوں کی تعلیم میں اضافے، ان کی اچھی صحت اور نومولود بچوں کی شرح اموات میں کمی کے لیے ضروری ہے کہ نو عمری کی شادیوں کو روکنے کے لیے مناسب اقدامات کیے جائیں۔
خواتین کی صحت کے بارے میں امریکی ادارہ برائے بین الاقوامی ترقی کے ایک منصوبے سے منسلک ڈاکٹر نبیلہ علی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ کم عمری کی شادی کے باعث لڑکیاں ناصرف اپنی تعلیم مکمل نہیں کر سکتیں بلکہ ان کے ہاں کم وزن کے بچے جنم لیتے ہیں جو ایک سال کی عمر تک پہنچنے سے پہلے ہی موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔
’’جب ایک نو عمر لڑکی حاملہ ہوتی ہے تو وہ خطرناک زچگی سمجھی جاتی ہے۔ وہ (لڑکی) اور اس کا ہونے والا بچہ اپنی غذائی ضرورت پورا کرنے کے حوالے سے ایک دوسرے سے مقابلہ کر سکتے ہیں۔ جس کا سبب یہ بنتا ہے یا تو زچگی کے دوران یا اس سے پہلے کمزوری کی وجہ سے ماں کی موت ہو جاتی ہے اور بچہ بھی موت کے منہ میں جا سکتا ہے۔‘‘
ڈاکٹر نبیلہ کہتی ہیں کہ وہ علاقے جہاں بچیوں کی تعلیم پر توجہ نہیں دی جاتی وہاں نو عمری کی شادیوں کا رجحان زیادہ ہے اور ان کے بقول نو عمری کی شادیوں کو روک کر غیر ضروری اموات سے بچا جا سکتا ہے۔
’’یہ ہی وجہ ہے کہ ہمارے ملک میں آبادی اتنی تیزی سے بڑھ رہی ہے کیوں کہ جب 14 یا 15 سال کی لڑکی کی شادی کر دی جاتی ہے تو 35 سال کی عمر میں پہنچنے تک اسے بہت زیادہ وقت مل جاتا ہے اور ایک کے بعد دوسرا بچہ پیدا ہو رہا ہوتا ہے جس کی وجہ سے ان میں خون کی کمی واقع ہو جاتی ہے اور وہ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہیں۔‘‘
ماہرین کا کہنا ہے کہ کم عمری کی شادیوں کی حوصلہ شکنی کے لیے ضروری ہے کہ اراکین پارلیمان قانون سازی کو موثر بنانے اور سول سوسائٹی کی نمائندہ تنظیمیں تعلیم و آگاہی میں اضافے کی مہم میں اپنا بھرپور کردار ادا کریں۔