اسلام آباد —
پاکستان کے وزیرِ اعظم نواز شریف ایک ہفتے پر محیط اپنے دورہ امریکہ کا آغاز پیر سے کر رہے ہیں.
تیسری مرتبہ وزارتِ عظمیٰ کا عہدے سنبھالنے کے بعد امریکہ کے اس پہلے دورے میں اُن کی بنیادی مصروفیت اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سربراہ اجلاس سے 27 ستمبر کو خطاب ہے، تاہم متعدد عالمی رہنماؤں سے ملاقاتیں اور ضمنی اجلاسوں میں شرکت بھی اس دورے کا حصہ ہیں۔
وزیرِ اعظم کے مشیر برائے اُمور خارجہ و قومی سلامتی سرتاج عزیز نے پاکستان کے سرکاری میڈیا سے خصوصی گفتگو میں کہا کہ نواز شریف کے اس دورے سے 11 مئی کے عام انتخابات کے بعد اقتدار سنبھالنے والی مسلم لیگ (ن) کی حکومت کی پالیسیوں کو عالمی سطح پر اُجاگر کرنے میں مدد دے گا۔
’’پاکستان بین الاقوامی دنیا کے خدشات دور کر سکتا ہے اور جس نیک نیتی اور خلوص کے ساتھ نئی پالیسیاں بنا رہا ہے اس کی بھی وضاحت کر سکتا ہے۔‘‘
اُنھوں نے کہا کہ سب سے اہم معاملہ افغانستان ہے جب کہ دہشت گردی اور پاکستان کے دیگر ممالک سے تعلقات بھی خاصی اہمیت کے حامل ہیں۔
’’وزیرِ اعظم کی جو تقریر ہو گی اس میں بھی اور جو ملاقاتیں ہوں گی ان میں بھی یہ وضاحت کی جائے گی خطے کے ممالک اور خصوصاً ہمسایہ ممالک بالخصوص افغانستان اور بھارت سے تعلقات بہتر کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔‘‘
وزیرِ اعظم نواز شریف کا جنرل اسمبلی سے خطاب اس لیے بھی خاص اہمیت اختیار کر گیا ہے کیوں کہ اس میں پاکستان کی سرزمین پر مشتبہ شدت پسندوں کے خلاف امریکی ڈرون حملوں کے معاملے کو پُر زور انداز میں اُٹھانے کا عندیہ دیا گیا ہے۔
سرتاج عزیز نے کہا کہ ڈرون حملوں کے بارے میں عالمی سطح پر بالعموم رائے پاکستان کے اُصولی موقف سے مطابقت رکھتی ہے، اور اس سے بڑھ کر اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے اپنے حالیہ دورہ پاکستانِ کے موقع پر ہتھیاروں سے لیس ڈرونز کے استعمال پر تحفظات کا اظہار بھی کیا تھا۔
’’اقوامِ متحدہ کی سکیورٹی کونسل کا ایک اجلاس ہتھیاروں اور انسانی جانوں کے زیاں میں کمی سے متعلق ہے، تو وہاں بھی ہم یہ مسئلہ اٹھائیں گے ... اور میرا خیال ہے کہ امریکہ کو احساس ہو رہا ہے کہ پاکستان کے اندر اور باہر بھی اس مسئلے پر خاصی بے چینی اور تشویش (پائی جاتی) ہے تو اس مسئلے کو ختم کیا جائے۔‘‘
پاکستان افغان سرحد سے ملحقہ قبائلی علاقوں میں امریکی ڈرون حملوں کو بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے ان کی مذمت کرتا آیا ہے۔ اس کا ماننا ہے کہ یہ حملے انسدادِ دہشت گردی کی مہم کے لیے نقصان دہ ہیں جب کہ ان سے خطے میں امن و استحکام کی کوششوں پر بھی منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ دورہ امریکہ کے موقع پر وزیرِ اعظم نواز شریف اور صدر براک اوباما کے مابین کوئی ملاقات طے نہیں، تاہم پاکستانی وزیرِ اعظم اور ان کے بھارتی ہم منصب منموہن سنگھ کے مابین ملاقات کے امکانات بدستور موجود ہیں، اگرچہ کہ اس سلسلے میں تاحال کوئی باضابطہ اعلان نہیں کیا گیا ہے۔
تیسری مرتبہ وزارتِ عظمیٰ کا عہدے سنبھالنے کے بعد امریکہ کے اس پہلے دورے میں اُن کی بنیادی مصروفیت اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سربراہ اجلاس سے 27 ستمبر کو خطاب ہے، تاہم متعدد عالمی رہنماؤں سے ملاقاتیں اور ضمنی اجلاسوں میں شرکت بھی اس دورے کا حصہ ہیں۔
وزیرِ اعظم کے مشیر برائے اُمور خارجہ و قومی سلامتی سرتاج عزیز نے پاکستان کے سرکاری میڈیا سے خصوصی گفتگو میں کہا کہ نواز شریف کے اس دورے سے 11 مئی کے عام انتخابات کے بعد اقتدار سنبھالنے والی مسلم لیگ (ن) کی حکومت کی پالیسیوں کو عالمی سطح پر اُجاگر کرنے میں مدد دے گا۔
’’پاکستان بین الاقوامی دنیا کے خدشات دور کر سکتا ہے اور جس نیک نیتی اور خلوص کے ساتھ نئی پالیسیاں بنا رہا ہے اس کی بھی وضاحت کر سکتا ہے۔‘‘
اُنھوں نے کہا کہ سب سے اہم معاملہ افغانستان ہے جب کہ دہشت گردی اور پاکستان کے دیگر ممالک سے تعلقات بھی خاصی اہمیت کے حامل ہیں۔
’’وزیرِ اعظم کی جو تقریر ہو گی اس میں بھی اور جو ملاقاتیں ہوں گی ان میں بھی یہ وضاحت کی جائے گی خطے کے ممالک اور خصوصاً ہمسایہ ممالک بالخصوص افغانستان اور بھارت سے تعلقات بہتر کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔‘‘
وزیرِ اعظم نواز شریف کا جنرل اسمبلی سے خطاب اس لیے بھی خاص اہمیت اختیار کر گیا ہے کیوں کہ اس میں پاکستان کی سرزمین پر مشتبہ شدت پسندوں کے خلاف امریکی ڈرون حملوں کے معاملے کو پُر زور انداز میں اُٹھانے کا عندیہ دیا گیا ہے۔
سرتاج عزیز نے کہا کہ ڈرون حملوں کے بارے میں عالمی سطح پر بالعموم رائے پاکستان کے اُصولی موقف سے مطابقت رکھتی ہے، اور اس سے بڑھ کر اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے اپنے حالیہ دورہ پاکستانِ کے موقع پر ہتھیاروں سے لیس ڈرونز کے استعمال پر تحفظات کا اظہار بھی کیا تھا۔
’’اقوامِ متحدہ کی سکیورٹی کونسل کا ایک اجلاس ہتھیاروں اور انسانی جانوں کے زیاں میں کمی سے متعلق ہے، تو وہاں بھی ہم یہ مسئلہ اٹھائیں گے ... اور میرا خیال ہے کہ امریکہ کو احساس ہو رہا ہے کہ پاکستان کے اندر اور باہر بھی اس مسئلے پر خاصی بے چینی اور تشویش (پائی جاتی) ہے تو اس مسئلے کو ختم کیا جائے۔‘‘
پاکستان افغان سرحد سے ملحقہ قبائلی علاقوں میں امریکی ڈرون حملوں کو بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے ان کی مذمت کرتا آیا ہے۔ اس کا ماننا ہے کہ یہ حملے انسدادِ دہشت گردی کی مہم کے لیے نقصان دہ ہیں جب کہ ان سے خطے میں امن و استحکام کی کوششوں پر بھی منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ دورہ امریکہ کے موقع پر وزیرِ اعظم نواز شریف اور صدر براک اوباما کے مابین کوئی ملاقات طے نہیں، تاہم پاکستانی وزیرِ اعظم اور ان کے بھارتی ہم منصب منموہن سنگھ کے مابین ملاقات کے امکانات بدستور موجود ہیں، اگرچہ کہ اس سلسلے میں تاحال کوئی باضابطہ اعلان نہیں کیا گیا ہے۔