اسلام آباد —
پاکستان کے بارہویں صدر کے انتخاب کے لیے منگل کو ہونے والی ووٹنگ میں حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کے امیدوار ممنون حسین واضح اکثریت سے کامیاب ہو گئے۔
ان کے مدمقابل اُمیدوار پاکستان تحریک انصاف کے وجیہہ الدین احمد تھے۔
الیکشن کمیشن کے مطابق ممنون حسین کو 432 جب کہ وجیہہ الدین احمد کو 77 ووٹ ملے۔
پارلیمنٹ ہاؤس اسلام آباد سمیت چاروں صوبائی اسمبلیوں میں ووٹنگ کا عمل صبح دس بجے سے سہ پہر تین بجے تک جاری رہا اور ووٹوں کی گنتی کا عمل مکمل ہونے کے بعد چیف الیکشن کمشنر فخر الدین جی ابراہیم نے ممنون حسین کی کامیابی کا باضابطہ اعلان کیا۔
حزب مخالف کی سب سے بڑی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی نے صدارتی انتخابات کے بائیکاٹ کیا تھا، جب کہ مسلم لیگ ق، عوامی نیشنل پارٹی اور بلوچستان نیشنل پارٹی (عوامی) نے بھی اس کی حمایت کی ہے۔
مسلم لیگ (ن) کے درخواست پر عدالت عظمٰی کی طرف سے صدارتی انتخابات کی تاریخ چھ اگست سے تبدیل کر کے 30 جولائی کر دی گئی تھی جس پر پیپلز پارٹی کے صدارتی اُمیدوار رضا ربانی نے انتخابات نا لڑنے کا اعلان کر دیا تھا۔
پارلیمنٹ ہاؤس میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس جب کہ چاروں صوبائی اسمبلیوں میں صوبائی چیف جسٹس صاحبان نے پولنگ کے اس عمل کے نگرانی کی۔
صدر کا انتخاب خفیہ رائے شماری کے ذریعے کیا گیا۔
موجودہ صدر آصف علی زرداری کی پانچ سالہ مدت صدارت 8 ستمبر کو ختم ہورہی ہے۔ ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ پارلیمانی انتخابات کے بعد جمہوری انداز میں انتقال اقتدار کا عمل مکمل ہونے کے بعد یہ پہلا صدارتی انتخاب تھا۔
11 مئی کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کی شکست کے بعد صدر آصف علی زرداری نے نئی مدت صدارت کے لیے انتخاب نا لڑنے کا اعلان کیا تھا۔
پاکستانی آئین کے مطابق صدر وفاق کی علامت اور سربراہ مملکت ہوتا ہے تاہم اختیارات وزیراعظم ہی پاس ہوتے ہیں۔
یہ انتخابی مرحلہ اختلافات اور تندو تیز بیانات کی زد میں رہا۔
حزب مخالف ہی کی ایک جماعت پاکستان تحریک انصاف نے گوکہ اس انتخاب میں بھرپور شرکت کی لیکن اس کے سربراہ عمران کا کہنا ہے کہ یہ عمل بہرحال متنازع ہے۔
’’جب اتنی جماعتوں نے بائیکاٹ کیا تو پھر انتخاب تو متنازع ہو گیا، ہماری جماعت میں بھی مشاورت ہوئی اور کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ نہیں حصہ لینا چاہیے لیکن ایک بڑی تعداد میں لوگوں یہ کہتے تھے کہ میدان کیوں کھلا چھوڑیں تو ہم نے اسی لیے حصہ لیا۔‘‘
مسلم لیگ ن شروع ہی سے پیپلز پارٹی کی طرف سے انتخابات کے بائیکاٹ کے فیصلے کو غلط اقدام قرار دیتی آرہی ہے۔ وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی و ترقی احسن اقبال نے منگل کو صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ انھیں پیپلز پارٹی کے فیصلے پر دکھ ہے۔
’’ انتخاب بالکل آئینی طریقے سے ہوا ہے اور پیپلز پارٹی کو اس میں جمہوریت کی پاسداری میں حصہ لینا چاہیے تھا۔‘‘
مبصرین یہ کہتے آئے ہیں کہ ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں کے درمیان پیدا ہونے والا اختلاف آگے چل کر مزید سیاسی کشیدگی کا باعث بن سکتا ہے لہذا قومی و سیاسی معاملات پر افہام و تفہیم سے کام لینے کی ضرورت ہے۔
ان کے مدمقابل اُمیدوار پاکستان تحریک انصاف کے وجیہہ الدین احمد تھے۔
الیکشن کمیشن کے مطابق ممنون حسین کو 432 جب کہ وجیہہ الدین احمد کو 77 ووٹ ملے۔
پارلیمنٹ ہاؤس اسلام آباد سمیت چاروں صوبائی اسمبلیوں میں ووٹنگ کا عمل صبح دس بجے سے سہ پہر تین بجے تک جاری رہا اور ووٹوں کی گنتی کا عمل مکمل ہونے کے بعد چیف الیکشن کمشنر فخر الدین جی ابراہیم نے ممنون حسین کی کامیابی کا باضابطہ اعلان کیا۔
حزب مخالف کی سب سے بڑی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی نے صدارتی انتخابات کے بائیکاٹ کیا تھا، جب کہ مسلم لیگ ق، عوامی نیشنل پارٹی اور بلوچستان نیشنل پارٹی (عوامی) نے بھی اس کی حمایت کی ہے۔
مسلم لیگ (ن) کے درخواست پر عدالت عظمٰی کی طرف سے صدارتی انتخابات کی تاریخ چھ اگست سے تبدیل کر کے 30 جولائی کر دی گئی تھی جس پر پیپلز پارٹی کے صدارتی اُمیدوار رضا ربانی نے انتخابات نا لڑنے کا اعلان کر دیا تھا۔
پارلیمنٹ ہاؤس میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس جب کہ چاروں صوبائی اسمبلیوں میں صوبائی چیف جسٹس صاحبان نے پولنگ کے اس عمل کے نگرانی کی۔
صدر کا انتخاب خفیہ رائے شماری کے ذریعے کیا گیا۔
موجودہ صدر آصف علی زرداری کی پانچ سالہ مدت صدارت 8 ستمبر کو ختم ہورہی ہے۔ ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ پارلیمانی انتخابات کے بعد جمہوری انداز میں انتقال اقتدار کا عمل مکمل ہونے کے بعد یہ پہلا صدارتی انتخاب تھا۔
11 مئی کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کی شکست کے بعد صدر آصف علی زرداری نے نئی مدت صدارت کے لیے انتخاب نا لڑنے کا اعلان کیا تھا۔
پاکستانی آئین کے مطابق صدر وفاق کی علامت اور سربراہ مملکت ہوتا ہے تاہم اختیارات وزیراعظم ہی پاس ہوتے ہیں۔
یہ انتخابی مرحلہ اختلافات اور تندو تیز بیانات کی زد میں رہا۔
حزب مخالف ہی کی ایک جماعت پاکستان تحریک انصاف نے گوکہ اس انتخاب میں بھرپور شرکت کی لیکن اس کے سربراہ عمران کا کہنا ہے کہ یہ عمل بہرحال متنازع ہے۔
’’جب اتنی جماعتوں نے بائیکاٹ کیا تو پھر انتخاب تو متنازع ہو گیا، ہماری جماعت میں بھی مشاورت ہوئی اور کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ نہیں حصہ لینا چاہیے لیکن ایک بڑی تعداد میں لوگوں یہ کہتے تھے کہ میدان کیوں کھلا چھوڑیں تو ہم نے اسی لیے حصہ لیا۔‘‘
مسلم لیگ ن شروع ہی سے پیپلز پارٹی کی طرف سے انتخابات کے بائیکاٹ کے فیصلے کو غلط اقدام قرار دیتی آرہی ہے۔ وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی و ترقی احسن اقبال نے منگل کو صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ انھیں پیپلز پارٹی کے فیصلے پر دکھ ہے۔
’’ انتخاب بالکل آئینی طریقے سے ہوا ہے اور پیپلز پارٹی کو اس میں جمہوریت کی پاسداری میں حصہ لینا چاہیے تھا۔‘‘
مبصرین یہ کہتے آئے ہیں کہ ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں کے درمیان پیدا ہونے والا اختلاف آگے چل کر مزید سیاسی کشیدگی کا باعث بن سکتا ہے لہذا قومی و سیاسی معاملات پر افہام و تفہیم سے کام لینے کی ضرورت ہے۔