رواں ہفتے پنجاب کے ضلع قصور کے قریب کوٹ رادھاکشن میں ایک مسیحی جوڑے کو تشدد کے بعد زندہ جلائے جانے کے واقعے کے خلاف احتجاج اور مذمت کا سلسلہ جاری ہے اور حکومت سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ وہ ایسے واقعات کے تدارک کے لیے مناسب قانون سازی کرے۔
کوٹ رادھا کشن میں ایک مسیحی میاں بیوی کو قرآن کی مبینہ بے حرمتی پر مشتعل ہجوم نے تشدد کے بعد اینٹوں کے بھٹے میں جلتی آگ میں پھینک کر ہلاک کر دیا تھا۔
پولیس نے اس واقعے میں ملوث ہونے کے الزام میں درجنوں افراد کو حراست میں لے کر تحقیقات شروع کر رکھی ہے جب کہ وزیراعظم نواز شریف سمیت ملک کے تقریباً سبھی سیاسی و مذہبی حلقوں کی طرف سے اسے ایک افسوسناک اور ناقابل قبول فعل قرار دیا گیا ہے۔
واقعے کے خلاف ملک کے مختلف شہروں میں مسیحی برادری اور سماجی حلقے احتجاجی مظاہرے کرتے چلے آرہے ہیں۔
جمعہ کو وفاقی دارالحکومت میں بھی ایک ایسا ہی مظاہرہ کیا گیا جس کے شرکا کا کہنا تھا کہ توہین مذہب کے قانون کے غلط استعمال کو روکنے کے لیے قانون سازی کیے بغیر ایسے واقعات کا تدارک ممکن نہیں۔
مظاہرے میں شریک جاوید پیارا کا تعلق مسیحی برادری سے ہے۔ وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انھوں نے کہا کہ متاثرین کے لیے امداد کے اعلانات کرنے سے مسائل حل نہیں ہوں گے۔
"پاکستان ہمارا ہے ہم بھی پاکستانی ہیں، پلاٹ دینے سے امدای رقم دینا اس کا حل نہیں۔۔۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ توہین مذہب کا قانون ختم کیا جائے لیکن اس پر نظر ثانی کی جائے کہ جب تک یہ گناہ ثابت نہیں ہو جاتا اس وقت تک کوئی قانون کو ہاتھ میں نہ لیا جائے۔"
سرگرم سماجی کارکن ثمر من اللہ بھی اس مظاہرے میں شریک تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اس واقعے کو صرف اقلیتوں کے خلاف کارروائی نہیں سمجھنا چاہیے بلکہ یہ پاکستانی شہریوں کے خلاف واقعہ ہے۔
"اقلیتیں بھی پاکستان کے اتنے ہی شہری ہیں جتنے کوئی دوسرے اور اگر ان کے ساتھ کوئی زیادتی ہوتی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ یہ پاکستانی شہری کے خلاف زیادتی ہے۔"
پاکستان میں توہین مذہب کے الزام میں خاص طور پر اقلیتوں کو ہدف بنانا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ مسیحی برادری سے تعلق رکھنے والوں پر اس سے پہلے بھی پرتشدد واقعات رونما ہوچکے ہیں۔