پنجاب کے سابق گورنر سلمان تاثیر کو قتل کرنے والے ان کے سرکاری محافظ ممتاز قادری کو ایک ہفتہ قبل راولپنڈی کی انسداد دہشت گردی کی ایک عدالت نے دو مرتبہ موت کی سزا سنائی تھی لیکن مذہبی جماعتوں نے اس فیصلے کی مذمت کرتے ہوئے اس کے خلاف احتجاج کیا تھا، اور اسی سلسلے میں نمازہ جمعہ کے بعد اسلام آباد اور کراچی سمیت ملک کے مختلف شہروں میں مظاہرے کیے گئے تاہم ان میں شامل افراد کی تعداد چند سو سے زیادہ نہیں تھی۔
اسلام آباد کے آبپارہ چوک میں نکالی گئی احتجاجی ریلی میں شریک بیسیوں مظاہرین نےممتاز قادری کی رہائی کے حق میں نعرے لگائے اور اس کو سنائی گئی سزا کو کالعدم قرار دینے کا مطالبہ کیا۔
وفاقی دارالحکومت میں احتجاج کی حوصلہ شکنی کے لیے جمعہ کی صبح سے ہی شہر کے بعض مرکزی داخلی راستوں کو بند کر دیا گیا تھا جس کے بعد شاہراہوں پر گاڑیوں کی طویل قطاریں لگ گئیں اور بہت سے لوگ اپنے دفاتر بھی نہیں پہنچ سکے۔
راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں قائم انسداد دہشت گردی کی ایک خصوصی عدالت نے یکم اکتوبر کو ممتاز قادری کو قتل اور دہشت گردی کے مقدمات میں دو مرتبہ موت اور دو لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی تھی۔
ممتاز قادری نے انسداد دہشت گردی کی عدالت کے فیصلے کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپیل دائر کر رکھی ہے اور اگر یہ درخواست مسترد کی جاتی ہے تو وہ سپریم کورٹ سے رجوع کر سکتا ہے، جب کہ عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے بعد بھی صدر پاکستان سے رحم کی حتمی اپیل کی جا سکتی ہے۔
پنجاب پولیس کی انتہائی تربیت یافتہ ’ایلیٹ فورس‘ میں شامل ممتاز قادری مقتول گورنر کے حفاظتی دستے میں شامل تھا اور اس نے چار جنوری کو سلمان تاثیر کو اسلام آباد میں اس وقت گولیاں مار کر ہلاک کر دیا تھا جب وہ ایک ریسٹورنٹ سے کھانا کھانے کے بعد گھر واپس جانے کے لیے اپنی گاڑی میں سوار ہو رہے تھے۔
قتل کے بعد قادری نے خود کو سکیورٹی اہلکاروں کے حوالے کرتے ہوئے اعتراف کیا تھا کہ اس نے گورنر کو ناموس رسالت ایکٹ کے خلاف قانون میں تبدیلی کی حمایت کرنے پر قتل کیا۔ گرفتاری کے بعد ممتاز قادری نے جوڈیشل مجسٹریٹ اور انسداد دہشت گردی کی عدالت کے سامنے بھی اپنے اعترافی بیانات میں بھی گورنر پنجاب کے قتل کو اپنا ذاتی فعل قرار دیا تھا۔