پاکستان میں پشتونوں کے حقوق کی تحریک پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنما منظور احمد پشتین نے کہا ہے کہ پی ٹی ایم دھمکیوں سے نہیں ڈرے گی اور نہ ہی وہ دبانے کمزور ہو گی۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ اپنے حقوق کی جدو جہد جاری رکھیں گے۔ انہوں نے ان خیالات کا اظہار پاکستان کی فوج کی ترجمان کی جانب سے عائد کیے جانے والے الزامات کے جواب میں وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کیا۔
پی ٹی ایم کی غیر ملکی فنڈنگ کے الزام کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پشتون عوام جنگ سے تنگ آ چکے ہیں اور وہ اس سے چھٹکارا پانے کے لیے ہر قربانی دینے پر تیار ہیں تو پھر پیسہ کیا چیز ہے۔
’’ہم بارہا یہ واضح کر چکے کہ ہمارے جلسوں میں چندہ باکس ہوتے ہیں ۔جہاں لوگ پیسے ڈالتے ہیں۔ ‘‘
ان کا کہنا تھا کہ ہمارے جلسوں میں خرچہ ہوتا ہی کہاں ہے۔ دس یا پندرہ کرسیاں ہوتی ہیں۔ لوگ زمین پر بیٹھے ہوتے ہیں، ایک لاوڈ سپیکر کا خرچہ ہوتا ہے۔
وائس آف امریکہ کے ساتھ سکائپ پر اپنے انٹرویو میں پی ٹی ایم کے لیڈر کا کہنا تھا،’’ پاکستانی فوج نے ملک میں جنگوں کے لیے بہت فنڈز لیے ہیں۔ پوری دنیا گواہ ہے۔ اس جنگ کے نام پر وہ مزید فنڈز لینا چاہتے ہیں اور پی ٹی ایم اس راہ میں رکاوٹ ہے، اس لیے وہ اسے ختم کرنے کے درپے ہیں‘‘۔
ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے اپنی پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ پشتون تحفظ موومنٹ کو دی گئی مہلت اب ختم ہو گئی ہے، انہوں نے جتنی آزادی لینی تھی لے لی، لیکن ان کے خلاف غیر قانونی راستہ اختیار نہیں کیا جائے گا۔
منظور پشتین کہتے ہیں’’ کون سے قانون کی بات کر رہے ہیں۔ اس قانون کی جسے جرنیلوں نے اپنے بوٹوں کے تلے روندھا ڈالا ہے۔ اس قانون کی بات کر رہے ہیں جہاں وزیر اطلاعات کا کام ڈی جی آئی ایس پی آر نے سنبھالا ہوا ہے۔ اس قانون کی بات کر رہے ہیں جہاں عدالت کے اندر جج بات نہیں کر سکتا‘‘۔
حکومت اور فوج کی جانب سے کسی ممکنہ کارروائی پر پشتین کا کہنا تھا کہ’’ یہ جو کہہ رہے ہیں کہ کریک ڈاؤن کریں گے تو ہمارا کون سا ایسا جلسہ ہے، جس میں ہمارے خلاف ایف آئی آر درج نہیں ہوئی، یا رکاوٹیں نہیں ڈالی گئیں۔ خفیہ اداروں کی جانب سے ہمارے کارکنوں کو دھمکیاں دی گئیں اور انہیں زبردستی اٹھایا گیا۔ پندرہ سالوں سے کریک ڈاؤن جاری ہے۔ ہم عادی ہو چکے ہیں اپنے لوگوں کی نعشیں اٹھاتے ہوئے۔ چھینے جانے کے لیے اب ہمارے پاس کچھ باقی نہیں بچا۔
پاکستان مخالف لوگوں سے ملاقات کے سوال کے جواب میں منظور پشتین کا کہنا تھا کہ فوج اپنے علاوہ ہ ہر کسی کو پاکستان مخالف سمجھتی ہے۔ میں نے حال ہی میں سینیٹ کمیٹی سے ملاقات کی اور اس سے پہلے وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات کر چکا ہوں اس کے علاوہ اور کسی سے ملاقات نہیں کی۔
ان کا کہنا ہے کہ ہمارے بنیادی مطالبات ابھی بھی اپنی جگہ ہیں۔ پہلا مطالبہ نقیب اللہ محسود کیس میں راو انور کی گرفتاری، دوسرا مطالبہ ماورائے عدالت ہلاکتوں کا خاتمہ اور لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے عدالتی کمیشن کا قیام۔ ابھی تک ان میں سے کوئی بھی مطالبہ پورا نہیں ہوا۔
آئندہ کے لائحہ عمل پر ان کا کہنا ہے کہ پی ٹی ایم ان باتوں سے کمزور نہیں ہو گی۔ ہم اپنی بات پر قائم ہیں، اس دن بھی قائم تھے جب یہ ہمیں’’ ونڈرفل بوائے ‘‘کہہ رہے تھے اور آج بھی جب یہ ہمیں مسلسل دھمکیاں دے رہے ہیں۔ ہم اب بھی اپنے مسائل کی بات کرتے ہیں‘‘۔
پاکستانی میڈیا کی جانب سے کوریج نہ ملنے پر ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے ہمیشہ اسٹبلشمنٹ کا ہی کہنا مانا ہے۔’’ یہ وہ میڈیا ہے جس نے ہمیشہ پہاڑوں کے اندر جا کر بڑے بڑے دہشت گروں کے انٹرویو ریکارڈ کر کے نشر کیے ہیں۔ یہ وہ میڈیا نہیں جو امن کی بات کرے۔ یہ جنگ اور دہشت گردی کو فروغ دینے کو ترجیح دیتا ہے۔ ایک بلی مر گئی اس کو کوریج ملی لیکن ہمیں نہیں۔