پاکستان پر قرض کا مجموعی حجم 36 کھرب روپے سے تجاوز کر چکا ہے جو ملک کی مجموعی پیداوار (جی ڈی پی) کا 87 فی صد بنتا ہے۔
وزیرِ اعظم عمران خان نے معاشی صورتِ حال پر اطمینان کا اظہار کیا ہے لیکن معاشی ماہرین کہتے ہیں کہ حکومتی وزرا معیشت سے متعلق حقائق کے برخلاف بیانات اور اعداد و شمار بیان کرتے ہیں جس سے صورتِ حال میں ابہام اور بے یقینی پیدا ہوتی ہے۔
وزارتِ خزانہ کے ترجمان محسن چاندنہ کے مطابق رواں سال جون کے اختتام پر حکومتی قرض 36 کھرب 30 ارب روپے تھا جب کہ آئین کے مطابق حکومت جی ڈی پی کا 60 فی صد سے زائد قرض حاصل نہیں کر سکتی۔
یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ حکومتی قرض جی ڈی پی کی مقررہ آئینی حد سے تجاوز ہوا بلکہ گزشتہ دو حکومتوں میں بھی یہ حد عبور ہوتی رہی ہے۔
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے اگست 2018 میں حکومت میں آنے سے قبل ملک پر مجموعی قرضہ لگ بھگ 25 ہزار ارب روپے تھا جو کہ اس وقت جی ڈی پی کا 72 فی صد بنتا تھا۔
مسلم لیگ (ن) اپنے پانچ سالہ دورِ حکومت میں مجموعی قرضے کی شرح جی ڈی پی کے 64 فی صد سے بڑھا کر 72 فی صد پر لے گئی تھی۔
پاکستان پر 2008 میں مجموعی قرض کا حجم ساڑھے چھ ہزار ارب روپے تھا جو پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی حکومت کے آخری مالی سال میں ساڑھے 13 ہزار ارب تک جا پہنچا تھا۔
تحریک انصاف کی حکومت کے دو سال کے دوران قرضوں میں 15 فی صد اضافہ ہوا ہے اور قرض کی شرح جی ٹی پی کے 87 فی صد کی سطح پر ہے۔
ماہرِ معاشیات اور وزیرِ اعظم عمران خان کی معاشی مشاورت کونسل کے رکن ڈاکٹر اشفاق حسن کہتے ہیں کہ حکومتی قرضے جنہیں پبلک ڈیٹ یا عوامی قرضے کہا جاتا ہے، اس کے حوالے سے جی ڈی پی کے 60 فی صد تک کی حد کی گزشتہ ایک دھائی سے خلاف ورزی ہو رہی ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ موجودہ دورِ حکومت میں بیرونی قرض کے بڑھنے کی بڑی وجہ روپے کی قدر میں کمی تھی جو ڈالر کے مقابلے میں 106 سے بڑھ کہ 165 روپے تک پہنچ گیا۔
اشفاق حسن نے کہا کہ گزشتہ 10 برس میں ملک پر قرض جس تیزی سے بڑھا ہے اس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔
ان کے بقول اس وقت ملک کا مجموعی قرض چھ ہزار ارب سے بڑھ کر 36 ہزار ارب روپے ہو چکا ہے جس کی بنیادی وجہ عالمی مالیاتی ادارے کے پروگرام میں شمولیت ہے۔
ماہر اقتصادی امور ڈاکٹر شکیل رامے کا کہنا ہے کہ موجودہ حکومت کو قرض اس لیے بھی لینا پڑا کیوں کہ پرانے قرض اور سود کی ادائیگی کرنا تھی۔
انہوں نے کہا کہ کرونا وائرس کے باعث عوام کو سہولت دینے کے لیے بھی پاکستان کو عالمی مالیاتی اداروں اور دوست ملکوں سے قرض لینا پڑا جس کے نتیجے میں مجموعی قرض میں اضافہ ریکارڈ ہوا۔
شکیل رامے کہتے ہیں کہ قرض کے حصول کے حوالے سے جی ڈی پی کے 60 فی صد کی حد معمول کے حالات کے لیے ہے جب کہ کرونا وائرس کے باعث پیدا شدہ صورتِ حال غیر معمولی ہے۔
اُن کے بقول امریکہ سمیت بہت سے ملکوں میں قرض کی یہ حد جی ڈی پی کے سو فی صد سے بھی زائد ہے۔
مجموعی قرض میں 45 فی صد اضافہ
ملک کے مجموعی قرض میں اضافے کے لحاظ سے پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے اپنے پہلے دو سال میں قرضوں کے بوجھ میں 11 ارب ڈالر کا اضافہ کیا ہے۔
وزارتِ خزانہ کے مطابق گزشتہ دو برسوں میں 11 اعشاریہ 35 ارب ڈالر کا اضافی قرض حاصل کیا گیا ہے۔
وزارتِ خزانہ کے ترجمان کے مطابق قرضوں میں یہ اضافہ حاصل کردہ قرضوں پر سود کی ادائیگی اور اس سے متعلق اخراجات کے لیے ہے جو حاصل قرض کا 42 فی صد بنتا ہے جب کہ 31 فی صد اضافہ روپے کی قدر میں کمی کی وجہ سے ہوا ہے۔
حکومت کی جانب اضافی قرض کا حصول ملکی مجموعی قرض میں 45 فی صد اضافہ ہے۔ قرض کے حصول میں اضافے کی بڑی وجہ مالی خسارہ پورا کرنا بتایا جاتا ہے۔
مسلم لیگ (ن) کا وائٹ پیپر
حزبِ اختلاف کی سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ (ن) نے تحریکِ انصاف کی حکومت کے دو سال مکمل ہونے پر وائٹ پیپر جاری کیا ہے۔ قائد حزبِ اختلاف شہباز شریف نے کہا ہے کہ موجودہ حکومت کے دو سال میں حاصل کردہ قرض سابقہ حکومت کے 5 سالہ دور میں لیے گئے قرضوں سے بھی زیادہ ہے۔
تاہم اقتصادی امور کے وفاقی وزیر حماد اظہر کا کہنا ہے کہ حکومت کو ان قرضوں کو ماضی کی حکومتوں کے حاصل قرضوں کی واپسی کے لیے لینا پڑا۔
اُن کے بقول دو سال کے دوران موجودہ حکومت نے 10 ارب ڈالر کے قرض کی ادائیگی کی ہے۔
مسلم لیگ (ن) کے جاری وائٹ پیپر پر تبصرہ کرتے ہوئے ڈاکٹر اشفاق حسن کہتے ہیں کہ ماضی کی دو حکومتوں نے جس برے انداز سے معیشت کو چلایا اس کے بعد وہ حق نہیں رکھتے کہ موجودہ حکومت کی معاشی پالیسیوں پر تنقید کریں۔
تاہم وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ حکومتی وزرا معیشت کے حوالے سے حقائق کے برخلاف بیانات اور اعداد و شمار بیان کرتے ہیں جس سے صورتِ حال میں ابہام پیدا ہو جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومتی وزرا کا یہ کہنا کہ قرض پرانے قرض کی ادائیگی کے لیے لیا گیا ہے تو ایسی صورت میں مجموعی قرض میں اضافہ نہیں ہونا چاہیے۔
ڈاکٹر شکیل رامے کا بھی ماننا ہے کہ معیشت کے حوالے سے حکومت کے بیانات اور دعوے غیر حقیقت پسندانہ ہیں جس کی وجہ سے وہ غیر ضروری تنقید کی زد میں رہتے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ قرض میں اضافہ مناسب نہیں ہے لیکن دیکھنا ہوگا کہ حکومت نے قرض کس مقصد کے لیے لیا ہے۔ اگر قرض حکومتی اخراجات کو پورا کرنے کے لیے ہے تو یہ مناسب اقدام نہیں ہو گا۔
ان کے بقول اگر قرض سے معیشت کی بحالی کے اقدامات کیے جا رہے ہیں تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
'خراب معیشت کا ذمہ دار سابقہ حکومتوں کو ٹھیرانا درست نہیں'
ڈاکٹر اشفاق حسن کہتے ہیں کہ معیشت پر قرضوں اور واجبات کے بوجھ کی ایسی صورتِ حال ہے کہ وہ اسے آخری دھائی کہیں گے اور ان کے بقول اس سے قبل ایسی معاشی صورتِ حال 1999 میں تھی۔
انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت کا خراب معیشت کے حوالے سے صرف ماضی کی حکومتوں کو ذمہ دار ٹھیرا دینا درست نہیں بلکہ موجودہ حکومت نے بھی مسائل کا حل نہیں کیا اور اس کے برعکس عوامی توقعات بڑھا دی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ عالمی بینک کے مطابق کرونا وائرس کے باعث پوری دنیا میں ترسیلاتِ زر 20 فی صد تک گر جائیں گی لیکن وزیرِ اعظم عمران خان کہتے ہیں کہ ترسیلاتِ زر میں ریکارڈ اضافہ ہوا ہے، جو حقائق کے برعکس ہے۔
ڈاکٹر اشفاق کا کہنا ہے کہ ملکی برآمدات میں حالیہ اضافہ اس وجہ سے ہے کہ کرونا وائرس کے باعث مارچ سے رکی ہوئی شپمنٹ حالیہ ہفتوں میں جانا شروع ہوئی ہیں۔
ان کے بقول ملکی معیشت میں جو کچھ اعتماد دکھائی دے رہا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ کرونا وائرس کے باعث آئی ایم ایف پروگرام گزشتہ چھ ماہ سے معطل ہے۔
یاد رہے کہ وزیرِ اعظم عمران خان نے پیر کو اپنے ایک ٹوئٹ میں کہا تھا کہ پاکستان کی معیشت درست راہ پر گامزن ہے اور رواں مالی سال کے پہلے ماہ میں کرنٹ اکاؤنٹ میں 42 کروڑ 40 لاکھ ڈالر اضافی جمع ہو چکے ہیں۔
انہوں نے معیشت پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ مالی سال 20-2019 کا جولائی میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 61 کروڑ 30 لاکھ ڈالر تھا جو جون 2020 میں کم ہو کر 10 کروڑ ڈالر رہ گیا ہے۔