رسائی کے لنکس

'پارلیمان کو دھرنے کے سیاسی حل کی کوشش کرنی چاہیے تھی'


تجزیہ کار رسول بخش رئیس کہتے ہیں کہ دھرنے کے دوران ہی پارلیمان کو صورتِ حال کا نوٹس لیتے ہوئے اس کے سیاسی حل کی کوشش کرنی چاہیے تھی۔

پاکستان کے وفاقی دارالحکومت میں ’فیض آباد انٹرچینج‘ پر تین ہفتوں سے دیے جانے والے دھرنے کے اختتام کے بعد منگل کو اسلام آباد میں معمولاتِ زندگی بحال ہونا شروع ہو گئے ہیں۔

لیکن جس طرح ملک کی عسکری قیادت کی مداخلت سے سیاسی و مذہبی جماعت 'تحریکِ لبیک یا رسول اللہ' کا دھرنا اچانک ختم کرنے کا اعلان ہوا، اس پر بعض حلقوں بشمول عدلیہ اور قانون سازوں کی طرف سے سوال اٹھائے جا رہے ہیں۔

پاکستان کے ایوانِ بالا یعنی سینیٹ کے چیئرمین رضا ربانی نے پیر کو ایوانِ بالا کے اجلاس کے دوران کہا تھا کہ حکومت اس بات کی وضاحت کرے کہ وہ فوج کو بلانے اور اس طرح معاہدہ کرنے پر کیوں مجبور ہوئی۔

رضا ربانی کا کہنا تھا کہ نئے رجحانات ریاست کے لیے خطرناک ہیں۔

اُن کا کہنا تھا کہ دھرنا ختم کرنے کے لیے فوج سے مدد طلب کی گئی اور ایک معاہدے بھی کیا گیا جس کے تحت وزیرِ قانون زاہد حامد کو مستعفی ہونا پڑا۔ لیکن اُن کے بقول اس سارے معاملے میں پارلیمان کو اعتماد میں نہیں لیا گیا۔

تجزیہ کار رسول بخش رئیس کہتے ہیں کہ دھرنے کے دوران ہی پارلیمان کو صورتِ حال کا نوٹس لیتے ہوئے اس کے سیاسی حل کی کوشش کرنی چاہیے تھی۔

’’اگر ربانی صاحب کو تحفظات ہیں تو اُنھوں نے معاملہ حل کرانے کے لیے پہلے ہاتھ کیوں نہیں بڑھایا۔۔۔ 21 دن وہ خاموش رہے۔۔۔ سینیٹ کی کوئی کمیٹی بنا کر چیئرمین کی حیثیت سے وہ کوئی مذاکرات کرتے اور اس معاملے کو ختم کرنے کی کوشش کرتے۔ لیکن اگر فوج نے کیا ہے تو اپنے طور پر نہیں کیا بلکہ وزارتِ داخلہ کی طرف سے درخواست گئی جب ان کا پولیس آپریشن ناکام ہو گیا۔‘‘

اس سے قبل اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے بھی پیر کو دھرنے سے متعلق دائر درخواستوں کی سماعت کرتے ہوئے اس سارے معاملے میں فوج کے کردار پر سوال اٹھائے تھے۔

'تحریکِ لبیک یا رسول اللہ' کے سربراہ مولانا خادم حسین رضوی نے دھرنا ختم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ اُنھیں حکومت پر اعتماد نہیں تھا اس لیے یہ معاہدہ فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ اور اُن کی ٹیم کی خصوصی کاوشوں کے ذریعے طے پایا۔

معاہدے کی دستاویز پر مذہبی جماعت کے قائدین کے علاوہ وزیرِ داخلہ احسن اقبال اور فوج کے ایک نمائندے میجر جنرل فیض حمید کے دستخط بھی موجود ہیں۔

تین ہفتوں تک جاری رہنے والے اس دھرنے کے اختتام سے قبل پولیس اور فرنٹیئر کانسٹیبلری کی طرف سے طاقت کے استعمال کے ذریعے ہفتے کی صبح مظاہرین کو منتشر کرنے کی کوشش کی ناکامی کے بعد ملک بھر میں مظاہروں اور دھرنوں کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔

ان مظاہروں کے دوران مستعفی ہونے والے وزیرِ قانون زاہد حامد سمیت حکمران جماعت کے کئی قانون سازوں کے گھروں پر مشتعل مظاہرین کی طرف سے دھاوا بھی بولا گیا جب کہ ایک رکنِ قومی اسمبلی میاں جاوید لطیف مظاہرین کے حملے میں زخمی بھی ہوئے۔

چیئرمین سینیٹ رضا ربانی نے اس صورتِ حال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ملک میں ابھرتے ہوئے نئے رجحانات کو خطرناک قرار دیا اور کہا کہ تمام فریق جمہوری نظام کے دفاع کے لیے کردار ادا کریں۔

تجزیہ کار رسول بخش رئیس کہتے ہیں کہ دھرنے سے ایک جماعت کو اپنے نظریات کا پرچار کرنے کا موقع ملا۔

’’جمہوریت کو تو خطرہ نہیں ہے لیکن یہ ہے کہ مذہبی انتہا پسندی کو فروغ مل رہا ہے۔ جب پارلیمان بھی کچھ نہیں کرتی اور حکومت بھی کچھ نہیں کرتی۔ بیس دن تک وہ (مظاہرین) عوام کو متحرک کرتے رہے اپنے حلقے کو مضبوط کرتے رہے۔ تو اس سے یہی اندازہ ہوتا ہے کہ انتہا پسندی مضبوط ہو رہی ہے۔‘‘

تاہم اُن کا کہنا تھا کہ یہ تاثر درست نہیں ہو گا کہ ایسی انتہا پسندی سے کوئی زبردستی حکومت یا پارلیمان پر قبضہ کر سکتا ہے۔

اراکین سینیٹ کی طرف سے یہ مطالبہ بھی کیا گیا ہے کہ حکومت تمام حقائق پارلیمان کے سامنے لائے۔

حکومت کو اس تمام تر صورتِ حال پر شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور ناقدین بشمول حزبِ مخالف کی ایک بڑی جماعت تحریکِ انصاف کی طرف سے کہا جا رہا ہے کہ حکومت اپنی عمل داری بحال کرنے میں ناکام ہو چکی ہے۔

XS
SM
MD
LG