پاکستان کی بری فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف اتوار کو امریکہ جا رہے ہیں۔ 2010ء کے بعد یہ کسی بھی پاکستانی آرمی چیف کا پہلا دورہ امریکہ ہے۔
پاکستان اور امریکہ کے درمیان سیاسی و عسکری تعلقات حالیہ برسوں میں اتار چڑھاؤ کا شکار رہے ہیں لیکن ایک ایسے وقت جب جنگ سے تباہ حال ملک افغانستان سے آئندہ ماہ بین الاقوامی افواج کا انخلا مکمل ہونے جا رہا ہے، مبصرین کے بقول پاکستان اور امریکہ میں عسکری تعاون اور روابط پہلے سے کہیں زیادہ اہمیت اختیار کر گئے ہیں۔
سینیئر تجزیہ کار اور پاکستانی فضائیہ کے سابق اعلیٰ عہدیدار شہزاد چودھری کہتے ہیں امریکہ نے افغانستان کے ساتھ جو دوطرفہ سکیورٹی معاہدہ طے کر رکھا ہے اس تناظر میں بھی اس کے پاکستان کے ساتھ فوجی سطح پر تعلقات بہت اہمیت کے حامل ہیں اور اس حوالے سے یہ دورہ بھی خاصا اہم ہوگا۔
"اس خطے میں امن و سلامتی کی جو مشترکہ ذمہ داری ہے، خصوصی طور پر افغانستان کی جو مدد کی جاسکتی ہے اور پھر جتنا سامان افغانستان سے واپس جانا ہے اور جس طرح سے وہاں انھوں نے اپنی افواج کو برقرار رکھنا ہے اس میں پاکستان کا ایک مسلسل کردار تو رہے گا تو ایک تو اس لحاظ سے رابطے کے لیے، ایک بہتر ہم آہنگی کے لیے یہ بہت اہم دورہ ہے۔"
ان کا کہنا تھا کہ تھا خطے کی صورتحال میں نئی حکمت عملی کے لیے بھی دونوں ملکوں کے عسکری روابط بہت اہم ہیں اور اس طرح کے دورے باہمی تعلقات کے لیے بھی کارآمد ہوتے ہیں۔
افغانستان کے ساتھ دوطرفہ سکیورٹی معاہدے کے تحت 2014ء کے بعد لگ بھگ نو ہزار امریکی فوجی یہاں موجود رہیں گے جو افغان سکیورٹی فورسز کو تربیت اور انسداد دہشت گردی میں معاونت فراہم کریں گے۔
دفاعی تجزیہ کار اور سابق لیفٹننٹ جنرل طلعت مسعود نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ گوکہ اس دورے سے کسی طرح کی بڑی پیش رفت کی توقع تو نہیں کی جاسکتی لیکن پاکستان کو درپیش سلامتی کے خطرات کے تناظرمیں جنرل راحیل شریف کا دورہ امریکہ پاکستان کے لیے مدد گار ثابت ہو سکتا ہے۔
"اندرونی طور پر جو سکیورٹی کے خدشات ہیں، ان کے تناظر میں پھر مشرقی سرحد پر بھی تناؤ چلتا رہا ہے اس حساب سے بھی کوئی تیاری تو ہونی ہے، اور اس کے ساتھ ستھ ہمارے افسران امریکہ سے تربیت بھی لیتے ہیں تو وہ جاری رکھنا چاہتے ہیں، اعلیٰ قیادت سے اچھے تعلقات چاہتے ہیں تو اس سلسلے میں یہ دورہ اچھا ہے۔"
ان کا کہنا تھا کہ امریکہ کے بھی اس خطے میں مفادات ہیں اور وہ بھی چاہے گا کہ یہاں نہ صرف سیاسی بلکہ عسکری قیادت کے ساتھ بھی تعلقات کو اچھا رکھا جائے اور ان کے بقول افغانستان میں جو کامیابی امریکہ کو حاصل ہوئی ہے اس کے تحفظ کے لیے بھی اسے پاکستان کی ضرورت ہے۔