وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے نواح میں سوسال سے زائد پرانا گولڑہ شریف جنکشن واقع ہے اور اسی ریلوے سٹیشن پر محکمہ ریل نے ایک عجائب گھر بنایا ہے جہاں برصغیر میں ریل کی آمد اور اس دور میں استعمال ہونے والی مختلف چیزوں کو محفوظ کیاگیا ہے۔
محمد رمضان یہاں اسٹیشن ماسٹر ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ یہ عجائب گھر 2002ء میں یورپی یونین کے تعاون سے بنایا گیا”گورے یہ چاہتے تھے کہ ان کے آباؤ اجداد جو اس خطے میں ریلوے کے لیے کام کرتے رہے ہیں تو ان کی چیزوں کو ایک جگہ اکٹھا کیا جائے“۔
عجائب گھر کے بظاہر ایک چھوٹے سے ہال میں برصغیر میں ریلوے کی تقریباً ایک سوسال سے زائد پرانی تاریخ محفوظ ہے۔
انیسویں صدی کے آخری ربع حصے میں ریلوے جو اس وقت نارتھ ویسٹرن ریلوے ہوا کرتی تھی، نے برصغیر میں ریل کے بنیادی ڈھانچے پر تیزی سے کام کرتے ہوئے اس کے دائرہ کار کو وسیع کیا۔1860ء کی دہائی میں کراچی سے کوٹری تک شروع ہونے والی اولین ریلوے لائن کو آہستہ آہستہ وسعت دی گئی اور پھر 1890ء سے 1910ء تک پشاور کے لیے ریلوے لائن مکمل کی گئی۔
اس عجائب گھر میں اس دورمیں استعمال ہونے والے انجن کے ماڈلز جن میں بھاپ سے چلنے والا وہ انجن بھی ہے جو ’ایگل انجن‘کہلاتا تھا اور یہ لاہور آنے والا پہلا انجن تھا، رکھے گئے ہیں۔
نارتھ ویسٹرن ریلوے میں محافظوں کے زیر استعمال بندوقیں جو محمد رمضان کے بقول اب بھی کارآمد ہیں ، موجود ہیں۔ پیغام رسانی کے لیے استعمال ہونے والا کیمٹو میٹربھی نظر آیا جو اس جدید مواصلاتی دور میں بسنے والوں کے لیے ایک اچھوتی دلچسپی کاسامان ہے۔
تقسیم ہندسے قبل ہندوستان کے آخری وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن ریلوے کی جس سیلون کار میں سفر کیا کرتے تھے اس کے ہیٹر ، پنکھے اور برتن جن پر برٹش ایمپائر کا مونو گرام بنا ہوا ہے ،یہاں محفوظ ہیں۔
اس دور کی گھڑیاں ، مختلف آلات،لیمپس،گزٹس،ٹائم ٹیبل اور دیگر سامان دیکھنے والوں کو اس دور کی یاد دلاتا ہے جب ریل کا سفر کچھ لوگوں کے لیے رومانویت سے بھرپور ہوتا تھا تو کچھ لوگوں کے خطرناک خیال۔
ہماری نظر ایک شوکیس میں رکھے ہوئے پیتل کے چند برتنوں پر پڑی جس کے بارے میں اسٹیشن ماسٹر محمد رمضان نے جو بتایا وہ ہمارے لیے کسی دلچسپ معلومات سے کم نہیں تھا۔ انھوں نے بتایا ” اس دور میں اسٹیشنوں پر ریلوے نے پانی پلانے والے لوگ بھرتی کیے ہوتے تھے اور جب گاڑی اسٹیشن پر رکتی تھی تو یہ لوگ آوازیں لگایا کرتے تھے کہ ’ہندو پانی، مسلمان پانی‘۔ کیونکہ یہ دونوں ایک دوسرے کے برتنوں میں پانی نہیں پیتے تھے لہذا ان کے لیے علیحدہ علیحدہ برتن استعمال ہوتے تھے۔“
ایک طرف شیشوں کے بکس میں کچھ مضامین اور فوجی وردی میں ملبوس ایک تصویرکے ہمراہ ایک عجیب ہیئت کی چابی رکھی تھی۔ اس کے بارے میں معلوم ہوا کہ تصویر میجر رفیع کی ہے۔تقسیم ہند کے وقت فسادات عروج پر تھے اور ریل گاڑیوں پر بلوائیوں کے حملے بہت بڑھ گئے تھے تو میجر رفیع نے بھارتی علاقے سے چلنے والی ایک ریل گاڑی کے ڈبوں میں مسافروں کو سوار کرانے کے بعد اِس چابی سے انھیں مقفل کیا اور خود بندوق لے کر انجن پر بیٹھ گئے تاکہ یہ معلوم ہو کہ فوج کی ریل گاڑی ہے اور یوں وہ سینکڑوں مسلمانوں کو بحفاظت لاہورپہنچانے میں کامیاب ہوگئے۔
گولڑہ شریف جنکشن پر ہی ایک اور دلچسپ بورڈ نظر آیا جس پر ہندی اور اردومیں عبارت کے علاوہ تصویریں بھی بنی ہوئی تھیں۔ اس کے بارے میں محمد رمضان نے بتایا کہ برصغیر میں جب انگریز آئے تو اپنے ساتھ چائے کی پتی بھی لائے لیکن یہاں بسنے والے لوگوں نے چائے کو حرام اور نقصان دہ قرار دے کر استعمال کرنے سے انکار کردیا۔ لوگوں میں آگاہی پیدا کرنے کے لیے اسٹیشنوں پر اس طرح کے بورڈ آویزاں کیے گئے جس میں چائے بنانے کا طریقہ، اس کے فوائد کے علاوہ تصویروں سے ظاہر کیا جاتا تھا کہ ہندو، سکھ اور مسلم کے لیے چائے ہرگز ممنوع نہیں۔
عجائب گھر کی سیر سے جہاں ہماری معلومات میں بہت اضافہ ہوا وہیں تاریخ کے آئنے میں جھانکنے کا موقع بھی ملا۔