پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف نے جمعرات کو صدر ممنون حسین کو ایک سمری ارسال کی ہے جس میں پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر ہونے والے حملے میں ملوث چار مجرموں کی رحم کی اپیلیں مسترد کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔
ان مجرموں کو فوجی عدالت کی طرف سے سزائے موت سنائی گئی تھی۔
ایک سرکاری بیان کے مطابق وزیراعظم نواز شریف نے کہا کہ گزشتہ سال پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر حملے کے بعد پاکستان تبدیل ہو چکا ہے۔
بیان میں کہا گیا کہ ہمارے بچوں کے ظالمانہ اور بے رحمانہ قتل میں ملوث عناصر رحم کے مستحق نہیں ہیں۔
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ پشاور اسکول پر حملے کے بعد ریاست، عوام کے منتخب نمائندوں، سیاسی جماعتوں اور ملک کے ہر ادارے نے متفقہ طور پر یہ فیصلہ کیا تھا کہ اس حملے میں ملوث عناصر کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا، اور اگر ضرورت پڑی تو اس کے لیے آئین میں ترمیم بھی کی جائے گی۔
بیان کے مطابق اسی لیے آئینی ترمیم کے ذریعے محدود وقت کے لیے فوجی عدالتیں بھی قائم کی گئیں۔
واضح رہے کہ رواں سال اگست میں فوجی عدالت کی طرف سے پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر حملے میں ملوث چھ شدت پسندوں کو سزائے موت سنائی گئی تھی، جن کی سزا کی توثیق فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف کر چکے ہیں۔
آرمی پبلک اسکول پر ملکی تاریخ کے بدترین دہشت گرد حملے میں 150 افراد ہلاک ہوئے تھے جن میں اکثریت بچوں کی تھی۔
اس حملے کے بعد نہ صرف حکومت نے سزائے موت پر عملدرآمد پر عائد پابندی اٹھاتے ہوئے مجرموں کو پھانسی دینے کا سلسلہ شروع کر دیا تھا بلکہ آئین میں ترمیم کر کے دو سال کے لیے دہشت گردی کے مقدمات چلانے کے لیے فوجی عدالتیں قائم کی تھیں۔
پاکستان میں مختلف جرائم میں سزا یافتہ 300 سے زائد مجرموں کو پھانسی دی جا چکی ہے۔
اگرچہ انسانی حقوق کی تنظیموں اور یورپی یونین کی طرف سے پاکستان سے یہ کہا جاتا رہا ہے کہ پھانسیوں پر عمل درآمد کو روکے، تاہم پاکستانی حکام کا موقف ہے کہ ملک کو اس وقت غیر معمولی حالات کا سامنا ہے جن سے نمٹنے کے لیے غیر معمولی اقدامات کی ضرورت ہے۔