اسلام آباد —
پاکستان نے افغان عہدیداروں کی طرف سے عائد ان الزامات کو ’’انتہائی افسوس ناک‘‘ قرار دیتے ہوئے مسترد کیا ہے کہ پاکستانی فوجیوں نے مشرقی افغانستان میں کارروائی کی ہے۔
وزارت خارجہ کی ترجمان نے منگل کو جاری ایک بیان میں کہا کہ یہ الزامات ’’بے بنیاد‘‘ ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ سینیئر افغان عہدیداروں کی طرف سے ایسے الزامات سامنے آئے ہیں کہ سادہ کپڑوں میں ملبوس پاکستانی فوجیوں نے صوبہ کنڑ میں حملے کیے۔
ترجمان کا کہنا تھا کہ یہ حقیقت ہے کہ افغانستان کے علاقے میں موجود دہشت گرد سرحد پار کارروائیاں کر کے پاکستانی فوجیوں کو نشانہ بناتے رہے ہیں۔
’’ہماری افواج نے زیادہ سے زیادہ تحمل اور ذمہ داری کے ساتھ صرف اپنے دفاع میں اقدامات کیے ہیں۔‘‘
ماضی میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان سر پار کارروائیوں کے الزامات کے بعد دنوں ہمسایہ ملکوں کے تعلقات میں کچھ تناؤ اور سرحد پر معمولی نوعیت کی گولہ باری کا تبادلہ دیکھنے میں آیا۔
بظاہر اسی تناظر میں تسنیم اسلم کا کہنا تھا کہ اسلام آباد توقع کرتا ہے کہ کابل ایسے اقدامات سے گریز کرے گا جو کہ سرحد پر امن و استحکام کے لیے خطرناک ہو سکتے ہیں۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ اسلام آباد اور کابل کے تعلقات میں تناؤ و کشیدگی کی صورت میں خونریز دہشت گردی کے خلاف جنگ جیتنا مشکل ہی نہیں بلکہ نا ممکن ہے۔
پشاور یورنیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کے ایسوسی ایٹ پروفیسر سید حسین شہید سہروردی نے کہا کہ ان الزامات سے ظاہر ہوتا ہے کہ اب بھی دونوں ملکوں میں کچھ اعتماد کی کمی موجود ہے جو کہ خطے کی سلامتی کے لیے خطرہ ہے۔
’’اگر باڈر پر کشیدگی اسی طرح چلتی رہی تو 50 اور 60 کی دہائی کا ماڈل سامنے آئے گا۔ افغانستان بھارت کی جانب زیادہ رخ کرے گا تاکہ پاکستان کو پنلٹی دے اور پاکستان اس کا جواب تلاش کرے گا۔ دونوں کو مشترکہ کوششوں کی طرف جانا چاہیے جو کہ بدقسمتی سے ابھی نظر نہیں آتیں۔ یعنی آپریشن یہاں شروع ہوا تو وہاں بھی ہونا چاہئے یا اسی طرح بات چیت کا عمل۔ یہ صورتحال کسی کے لیے بھی فائدہ مند نہیں۔‘‘
افغان سرحد سے متصل قبائلی علاقوں میں فوجی آپریشن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ترجمان تسنیم اسلم نے کہا ’’ہم سمجھتے ہیں کہ افغانستان کی جانب سے ایسے بے بنیاد الزامات نا صرف فضا کو بگاڑتے ہیں بلکہ دونوں ملکوں کے درمیان تعمیری کوششوں کو بھی نقصان پہنچاتے ہیں۔‘‘
ترجمان نے اس اعادے کو دہرایا کہ اسلام آباد ان مسائل کے حل سے اور افغان عوام سے ’’دوستانہ اور باہمی تعاون‘‘ کے تعلقات کو استوار کرنے کی کوششیں جاری رکھے گا۔
پاکستانی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ ملک میں دہشت گردوں کے خلاف فوجی کارروائیوں سے بھاگ کر کئی عسکریت پسندوں نے افغانستان میں پناہ لے رکھی ہے۔ سکیورٹی اہلکاروں کے مطابق کالعدم شدت پسند تنظیم تحریک طالبان پاکستان کا سربراہ ملا فضل اللہ بھی کنڑ یا نورستان کے علاقوں میں روپوش ہے۔
افغان اور امریکی حکام کا بھی کہنا ہے کہ پاکستان کے قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں موجود القاعدہ سے منسلک شدت پسند سرحد پار مہلک کارروائیاں کرتے ہیں۔
رواں ماہ ہی پاکستانی افواج نے شمالی وزیرستان میں آپریشن شروع کیا ہے جس میں فوج کے ترجمان کے مطابق 250 سے زائد جنگجو مارے جا چکے ہیں جن میں ایک بڑی تعداد غیر ملکی عسکریت پسندوں کی بتائی جاتی ہے۔
شمالی وزیرستان میں فوجی کارروائی کا آغاز کرتے ہوئے اسلام آباد نے کابل کو سرحد بند کرنے اور افغانستان میں شدت پسندوں کے خلاف اقدامات کرنے کا کہا تھا۔
وزارت خارجہ کی ترجمان نے منگل کو جاری ایک بیان میں کہا کہ یہ الزامات ’’بے بنیاد‘‘ ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ سینیئر افغان عہدیداروں کی طرف سے ایسے الزامات سامنے آئے ہیں کہ سادہ کپڑوں میں ملبوس پاکستانی فوجیوں نے صوبہ کنڑ میں حملے کیے۔
ترجمان کا کہنا تھا کہ یہ حقیقت ہے کہ افغانستان کے علاقے میں موجود دہشت گرد سرحد پار کارروائیاں کر کے پاکستانی فوجیوں کو نشانہ بناتے رہے ہیں۔
’’ہماری افواج نے زیادہ سے زیادہ تحمل اور ذمہ داری کے ساتھ صرف اپنے دفاع میں اقدامات کیے ہیں۔‘‘
ماضی میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان سر پار کارروائیوں کے الزامات کے بعد دنوں ہمسایہ ملکوں کے تعلقات میں کچھ تناؤ اور سرحد پر معمولی نوعیت کی گولہ باری کا تبادلہ دیکھنے میں آیا۔
بظاہر اسی تناظر میں تسنیم اسلم کا کہنا تھا کہ اسلام آباد توقع کرتا ہے کہ کابل ایسے اقدامات سے گریز کرے گا جو کہ سرحد پر امن و استحکام کے لیے خطرناک ہو سکتے ہیں۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ اسلام آباد اور کابل کے تعلقات میں تناؤ و کشیدگی کی صورت میں خونریز دہشت گردی کے خلاف جنگ جیتنا مشکل ہی نہیں بلکہ نا ممکن ہے۔
پشاور یورنیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کے ایسوسی ایٹ پروفیسر سید حسین شہید سہروردی نے کہا کہ ان الزامات سے ظاہر ہوتا ہے کہ اب بھی دونوں ملکوں میں کچھ اعتماد کی کمی موجود ہے جو کہ خطے کی سلامتی کے لیے خطرہ ہے۔
’’اگر باڈر پر کشیدگی اسی طرح چلتی رہی تو 50 اور 60 کی دہائی کا ماڈل سامنے آئے گا۔ افغانستان بھارت کی جانب زیادہ رخ کرے گا تاکہ پاکستان کو پنلٹی دے اور پاکستان اس کا جواب تلاش کرے گا۔ دونوں کو مشترکہ کوششوں کی طرف جانا چاہیے جو کہ بدقسمتی سے ابھی نظر نہیں آتیں۔ یعنی آپریشن یہاں شروع ہوا تو وہاں بھی ہونا چاہئے یا اسی طرح بات چیت کا عمل۔ یہ صورتحال کسی کے لیے بھی فائدہ مند نہیں۔‘‘
افغان سرحد سے متصل قبائلی علاقوں میں فوجی آپریشن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ترجمان تسنیم اسلم نے کہا ’’ہم سمجھتے ہیں کہ افغانستان کی جانب سے ایسے بے بنیاد الزامات نا صرف فضا کو بگاڑتے ہیں بلکہ دونوں ملکوں کے درمیان تعمیری کوششوں کو بھی نقصان پہنچاتے ہیں۔‘‘
ترجمان نے اس اعادے کو دہرایا کہ اسلام آباد ان مسائل کے حل سے اور افغان عوام سے ’’دوستانہ اور باہمی تعاون‘‘ کے تعلقات کو استوار کرنے کی کوششیں جاری رکھے گا۔
پاکستانی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ ملک میں دہشت گردوں کے خلاف فوجی کارروائیوں سے بھاگ کر کئی عسکریت پسندوں نے افغانستان میں پناہ لے رکھی ہے۔ سکیورٹی اہلکاروں کے مطابق کالعدم شدت پسند تنظیم تحریک طالبان پاکستان کا سربراہ ملا فضل اللہ بھی کنڑ یا نورستان کے علاقوں میں روپوش ہے۔
افغان اور امریکی حکام کا بھی کہنا ہے کہ پاکستان کے قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں موجود القاعدہ سے منسلک شدت پسند سرحد پار مہلک کارروائیاں کرتے ہیں۔
رواں ماہ ہی پاکستانی افواج نے شمالی وزیرستان میں آپریشن شروع کیا ہے جس میں فوج کے ترجمان کے مطابق 250 سے زائد جنگجو مارے جا چکے ہیں جن میں ایک بڑی تعداد غیر ملکی عسکریت پسندوں کی بتائی جاتی ہے۔
شمالی وزیرستان میں فوجی کارروائی کا آغاز کرتے ہوئے اسلام آباد نے کابل کو سرحد بند کرنے اور افغانستان میں شدت پسندوں کے خلاف اقدامات کرنے کا کہا تھا۔