پاکستان نے افغان حکام کے ان الزامات کی تردید کی ہے جن میں کہا گیا تھا کہ کابل میں انٹرکانٹیننٹل ہوٹل پر ہونے والے حملے کی منصوبہ بندی پاکستانی سرزمین پر ہوئی۔
اُدھر افغان حکام کا کہنا ہے کہ ہفتے اور اتوار کی درمیانی شب کابل کے حساس علاقے میں واقعہ پرتعیش ہوٹل پر دہشت گردوں کے حملے میں ہلاکتوں کی تعداد 30 سے تجاوز کر گئی ہے جب کہ حکام ہلاکتوں میں مزید اضافے کے خدشے کا اظہار کر رہے ہیں۔
حملے کے بعد بعض افغان حکام کی طرف سے کہا گیا تھا کہ اس حملے میں افغان طالبان کا دھڑا حقانی نیٹ ورک ملوث ہے جس کے مبینہ طور پر پاکستانی حدود میں ٹھکانے ہیں۔
پاکستانی وزارتِ خارجہ کے ترجمان محمد فیصل نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ایک پیغام میں کہا ہے کہ کابل میں انٹرکانٹیننٹل ہوٹل پر حملے کے بعد بعض افغان حلقوں کی طرف سے پاکستان پر انگلی اٹھائی گئی، جسے اسلام آباد مسترد کرتا ہے۔
ترجمان کا کہنا تھا کہ اس حملے کی قابل بھروسہ تحقیقات کرانی چاہئیں اور ان اطلاعات کو بھی پیشِ نظر رکھنا چاہیے کہ اس حملے کی ایک وجہ سکیورٹی انتظامات میں برتی جانے والی غفلت بھی تھی۔
واضح رہے کہ اس حملے کی ذمہ داری افغان طالبان نے قبول کی تھی۔
افغان حکام کے مطابق اس حملے میں مارے جانے والوں میں 14 غیر ملکی شامل ہیں جن میں ہوٹل میں ٹہرے ہوئے مہمان، عملہ اور سکیورٹی فورسز کے اہلکار شامل ہیں۔
حملہ آوروں نے فوجی اہلکاروں کی وردیاں پہن رکھی تھیں۔ حملے کے دوران 150 افراد بشمول 41 غیر ملکیوں کو ہوٹل سے محفوظ طریقے سے نکال لیا گیا تھا۔
اس سے قبل کابل انٹرکانٹیننٹل ہوٹل پر جون 2011ء میں حملہ کیا گیا تھا جس میں 21 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔