اسلام آباد —
پاکستان نے اپنے ہاں قید افغان طالبان کے سابق اعلٰی کمانڈر ملا عبدالغنی برادر کو ہفتہ کو رہا کر دیا۔
سرکاری ذرائع ابلاغ نے ملا برادر کے رہا ہونے کی تصدیق کی، تاہم اس بارے میں مزید تفصیلات منظر عام پر نہیں آئیں اور نا ہی یہ بتایا گیا کہ سابق طالبان کمانڈر رہائی کے بعد کہاں جائیں گے۔
وزارتِ خارجہ نے جمعہ کی شب جاری کردہ اپنے مختصر بیان میں سابق طالبان رہنما کی رہائی کے دن کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ اقدام ’’افغانستان میں جاری مفاہمتی عمل میں مزید تعاون‘‘ کے لیے کیا گیا۔
ملا عمر کے نائب کے طور پر طالبان تحریک سے وابستہ رہنے والے ملا برادر پاکستان میں زیرِ حراست طالبان قیدیوں میں سب سے اہم شخص تھے۔
اُنھیں 2010ء کے اوائل میں گرفتار کیا گیا تھا، جس کے بعد سے وہ نامعلوم مقام پر پاکستان کے سکیورٹی اداروں کی تحویل میں رہے۔
ان کی رہائی کے بعد گزشتہ برس سے اب تک پاکستان کی جانب سے رہا کیے گئے افغان طالبان قیدیوں کی تعداد 34 ہو گئی ہے۔
حکام کے بقول رہائی کے مجموعی عمل میں افغان اور امریکی عہدیداروں کی مشاورت شامل رہی۔
ملا برادر کی رہائی پر براہ راست تبصرے سے گریز کرتے ہوئے اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے کی ترجمان میگن گریگونس نے کہا کہ طالبان قیدیوں کی ذمہ دارانہ انداز میں رہائی کے لیے افغانستان اور پاکستان کے مابین ہم آہنگی اہمیت کی حامل ہے۔
’’ہم افغان دھڑوں کے درمیان سیاسی عمل کی حمایت کرتے ہیں اور مجھے اس بات کا ادراک ہے کہ ملا برادر کی رہائی اس سیاسی عمل میں ممکنہ طور پر معاون ثابت ہو سکتی ہے۔‘‘
مبصرین کا ماننا ہے کہ ملا برادر کے افغان امن عمل میں کردار کے بارے میں کچھ کہنا قبل از قت ہوگا۔
پاکستان فضائیہ کے سابق افسر اور دفاعی تجزیہ نگار شہزاد چودھری نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ملا برادر کی رہائی کو خوش آئند قرار دیا۔
’’جب یہ (ملا برادر) طالبان کا حصہ تھے ان کو قد و منزلت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا ... ہو سکتا اب بھی ان کا اثر و رسوخ ہو، یہ کسی نا کسی طریقے سے کچھ مدد کر سکیں۔‘‘
پاکستان کی حکومت تواتر کے ساتھ یہ اُصولی موقف دہراتی آئی ہے کہ وہ افغانستان میں پائیدار قیام امن میں ہر ممکن کردار ادا کرے گی کیوں کہ دونوں ہمسایہ ممالک اور خطے میں امن و استحکام اس سے مشروط ہے۔
گزشتہ ماہ دورہِ اسلام آباد کے موقع پر صدر کرزئی نے پاکستانی قیادت سے کہا تھا کہ وہ افغانستان میں دیرپا امن کے قیام کے لیے اعلٰی افغان امن کونسل اور طالبان کے درمیان براہ راست مذاکرات میں اپنا کردار ادا کرے۔
سرکاری ذرائع ابلاغ نے ملا برادر کے رہا ہونے کی تصدیق کی، تاہم اس بارے میں مزید تفصیلات منظر عام پر نہیں آئیں اور نا ہی یہ بتایا گیا کہ سابق طالبان کمانڈر رہائی کے بعد کہاں جائیں گے۔
وزارتِ خارجہ نے جمعہ کی شب جاری کردہ اپنے مختصر بیان میں سابق طالبان رہنما کی رہائی کے دن کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ اقدام ’’افغانستان میں جاری مفاہمتی عمل میں مزید تعاون‘‘ کے لیے کیا گیا۔
ملا عمر کے نائب کے طور پر طالبان تحریک سے وابستہ رہنے والے ملا برادر پاکستان میں زیرِ حراست طالبان قیدیوں میں سب سے اہم شخص تھے۔
اُنھیں 2010ء کے اوائل میں گرفتار کیا گیا تھا، جس کے بعد سے وہ نامعلوم مقام پر پاکستان کے سکیورٹی اداروں کی تحویل میں رہے۔
ان کی رہائی کے بعد گزشتہ برس سے اب تک پاکستان کی جانب سے رہا کیے گئے افغان طالبان قیدیوں کی تعداد 34 ہو گئی ہے۔
حکام کے بقول رہائی کے مجموعی عمل میں افغان اور امریکی عہدیداروں کی مشاورت شامل رہی۔
ملا برادر کی رہائی پر براہ راست تبصرے سے گریز کرتے ہوئے اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے کی ترجمان میگن گریگونس نے کہا کہ طالبان قیدیوں کی ذمہ دارانہ انداز میں رہائی کے لیے افغانستان اور پاکستان کے مابین ہم آہنگی اہمیت کی حامل ہے۔
’’ہم افغان دھڑوں کے درمیان سیاسی عمل کی حمایت کرتے ہیں اور مجھے اس بات کا ادراک ہے کہ ملا برادر کی رہائی اس سیاسی عمل میں ممکنہ طور پر معاون ثابت ہو سکتی ہے۔‘‘
مبصرین کا ماننا ہے کہ ملا برادر کے افغان امن عمل میں کردار کے بارے میں کچھ کہنا قبل از قت ہوگا۔
پاکستان فضائیہ کے سابق افسر اور دفاعی تجزیہ نگار شہزاد چودھری نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ملا برادر کی رہائی کو خوش آئند قرار دیا۔
’’جب یہ (ملا برادر) طالبان کا حصہ تھے ان کو قد و منزلت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا ... ہو سکتا اب بھی ان کا اثر و رسوخ ہو، یہ کسی نا کسی طریقے سے کچھ مدد کر سکیں۔‘‘
پاکستان کی حکومت تواتر کے ساتھ یہ اُصولی موقف دہراتی آئی ہے کہ وہ افغانستان میں پائیدار قیام امن میں ہر ممکن کردار ادا کرے گی کیوں کہ دونوں ہمسایہ ممالک اور خطے میں امن و استحکام اس سے مشروط ہے۔
گزشتہ ماہ دورہِ اسلام آباد کے موقع پر صدر کرزئی نے پاکستانی قیادت سے کہا تھا کہ وہ افغانستان میں دیرپا امن کے قیام کے لیے اعلٰی افغان امن کونسل اور طالبان کے درمیان براہ راست مذاکرات میں اپنا کردار ادا کرے۔