پاکستان کے قبائلی علاقوں سے متعلق اسلام آباد میں منعقدہ گرینڈ جرگے کے اختتام پر نے ہفتہ کو ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا جس میں شدت پسندوں کے خلاف جاری فوجی آپریشن کو منطقی انجام تک پہنچانے اور دہشت گردوں سے صاف کروائے گئے علاقوں میں یہاں سے بے دخل ہونے والے افراد کی واپسی کا مطالبہ کیا گیا۔
اس جرگے میں مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کے علاوہ قبائلی علاقوں کے عمائدین کی ایک بڑی تعداد شریک تھی۔
اعلامیے میں حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ قبائلی علاقے میں تباہ شدہ بنیادی ڈھانچے کو بحال کرنے کے لیے خصوصی اقدامات کے ساتھ ساتھ وہاں صنعتی زون بنائیں جائیں تاکہ مقامی لوگوں کو روزگار مہیا ہوسکے۔
مزید برآں یہاں ہلاک ہونے والوں کے ورثا اور زخمیوں کو معاوضے بھی دیے جائیں۔
سات مختلف ایجنسیوں پر مشتمل پاکستان کا قبائلی علاقہ وفاق کے زیر انتظام ہے اور ان کا انتظامی سربراہ گورنر خیبر پختونخواہ ہوتا ہے۔
مختلف ایجنسیوں میں شورش پسندی اور دہشت گردی کی وجہ سے لاکھوں افراد حالیہ برسوں میں نقل مکانی پر مجبور ہوئے جب کہ رواں سال شمالی وزیرستان اور پھر خیبر ایجنسی میں شروع ہونے والی فوجی کارروائیوں کے بعد لگ بھگ دس لاکھ افراد عارضی طور پر اپنا گھر بار چھوڑ کر خیبر پختونخواہ کے مختلف علاقوں میں مقیم ہیں۔
جرگے سے خطاب کرتے ہوئے حکومت کی اتحادی جماعت جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ فضل الرحمن کا کہنا تھا کہ جن علاقوں سے دہشت گردوں کا صفایا کیا جاچکا ہے وہاں لوگوں کی واپسی شروع کی جانی چاہیے۔
" اعلان کیا جا رہا ہے کہ علاقہ کلیئر ہے 90 فیصد علاقہ کلیئر کر دیا گیا۔ شمالی وزیرستان کا وفد اسلام آباد آیا وزیر اعظم سے ملا اور میں اس ملاقات میں موجود تھا۔ یہی مطالبہ تھا کہ ہمیں اپنے گھروں میٕں واپس بھیج دیا جائے۔ ہمارے قبائل خیموں میں رہنے کے عادی نہیں ہیں وہ اپنے ٹوٹے پھوٹے گھروں میں واپس جانا چاہتے ہیں۔"
فوجی حکام یہ کہہ چکے ہیں کہ شمالی وزیرستان کے تقریباً نوے فیصد علاقے کو دہشت گردوں سے پاک کر دیا گیا ہے لیکن شدت پسندوں کی طرف سے بچھائی جانے والی سرنگوں کی صفائی تک وہاں لوگوں کی واپسی شروع نہیں ہو سکتی۔
خیبرپختونخواہ کی سابق حکمران جماعت عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفند یار ولی کا جرگے سے خطاب میں کہنا تھا کہ فاٹا کی آئندہ حیثیت کا فیصلہ وہاں کی عوام کو ہی کرنا ہے اور ان کے بقول وہاں کے لوگوں کو اپنے ساتھ شامل کیے بغیر ملک اور خطے میں امن ناممکن ہے۔
" جب قبائلی عمائدین اور قبائلی زعما کو آپ اعتماد میں نہ لیں کسی صورت میں قبائلی علاقوں اور پورے خطے میں امن نہیں آ سکتا۔ اکیلے تم امن نہیں لا سکو گے۔ ان لوگوں کو تم نے ساتھ لینا ہے۔"
مرکزی اور صوبائی حکومت کے علاوہ پاکستانی فوج بھی قبائلی علاقے سے عارضی طور پر بے گھر ہونے والے افراد کی دیکھ بھال میں مصروف ہے اور عہدیداروں کا کہنا ہے کہ اس ضمن میں اربوں روپے خرچ کیے جاچکے ہیں اور جیسے ہی حالات سازگار ہوں گے ان لوگوں کی اپنے گھروں کو باعزت واپسی یقینی بنائی جائے گی۔
امریکہ بھی پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ترقی کے لیے مختلف منصوبوں میں معاونت فراہم کرتا آرہا ہے جس میں یہاں بنیادی ڈھانچے، سڑکوں اور پلوں کی تعمیر کے علاوہ تعلیمی شعبے میں اعانت بھی شامل ہے۔