پاکستان میں خواتین کے خلاف جرائم کی حوصلہ شکنی اور ان کے حقوق کے تحفظ کے لیے نئی قانون سازی میں تاخیر پر انسانی حقوق کی تنظیموں نے تشویش کا اظہار کیا ہے۔
خواتین کی ایک تہائی نمائندگی پر مشتمل پارلیمان نے حالیہ برسوں میں جہاں عوامی مقامات اور دفتروں میں خواتین کو ہراساں کیے جانے اور کارو کاری جیسی فرسودہ رسومات کے خلاف موثر قانون سازی کی ہے وہیں خواتین کے خلاف گھریلو تشدد کے واقعات کی حوصلہ شکنی کے لیے تاحال کوئی قانون نہیں بن سکا ہے۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ جنوبی ایشیا میں پاکستان وہ واحد ملک ہے جہاں خواتین پر گھریلو تشدد کی حوصلی شکنی کے لیے کوئی قانون ہی موجود نہیں۔
مزید برآں خواتین کے حقوق کی علمبردار تنظیمیں اور سول سوسائٹی زبردستی کی شادی اور وراثت میں خواتین کو حصہ نہ دینے کے لیے قرآن سے نکاح جیسی فرسودہ روایات کے خاتمے کے لیے آواز اٹھا رہی ہیں اور ان ہی جرائم کے سد باب کے لیے ایک مجوزہ قانون منظوری کے لیے قومی اسمبلی کے گزشتہ اجلاس میں دو مرتبہ پیش کیا گیا لیکن ایوان میں اس پر مختلف وجوہات کی بنا پر رائے شماری نہ ہو سکی۔
قومی اسمبلی کے اجلاس کے آخری روز خواتین کے خلاف جرائم کے قانون پر رائے شماری جاری تھی کہ رکن اسمبلی شاہ محمود قریشی نے ترمیمی مسودہ کی کاپی نہ ہونے پر رائے شماری میں حصہ لینے سے انکار کر دیا۔ لیکن جب بل کی کاپی اُنھیں فراہم کر دی گئی تو اُنھوں نے اچانک ایوان میں اراکین اسمبلی کی دوہری قومیت پر بحث شروع کر کے اجلاس کا موضوع ہی بدل دیا اور یوں خواتین کے خلاف جرائم کا بل منظوری کے بغیر ہی اجلاس غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دیا گیا۔
انسانی حقوق کی تنظیموں اور غیر جانبدار مبصرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کی قانون ساز اسمبلی میں اراکین کی اکثریت جاگیرداروں اور قبیلے کے سرداروں کی نمائندگی کرتی ہے جن کے ہاں خواتین کو وراثت سے محروم رکھنے جیسی روایات عام ہیں اس لیےخواتین کے خلاف ایسے قوانین کی منظوری میں اُن کی مبینہ عدم دلچیسپی غیر معمولی بات نہیں ہے۔
پاکستان میں خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لیے قائم نیشنل کمیشن فاراسٹیٹیس آف ویمن کی سربراہ انیس ہاورن کہتی ہیں کہ 2008 ء میں خواتین پر گھریلو تشدد کا قانون قومی اسمبلی سے منظوری کےبعد سینٹ میں قدامت پسند سیاسی جماعتوں کے رویوں کے باعث تاخیر کا شکار ہو کر غیر موثر ہوگیا تھا۔
اُنھوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ’’لاعلمی اور تعلیم نہ ہونے کی بنیاد پر برسوں سے جو روایات چلی آ رہی ہیں۔ یہ وہی رویے ہیں جو سوسائٹی میں موجود ہیں اور ہر جگہ نظر اتے ہیں ‘‘
بیگم انیس ہاورن نے کہا کہ رویوں میں تبدیلی کے لیے ہر طبقے کو اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’’ گھریلو تشدد کو خواتین کا ایک اہم مسئلہ سمھجا جاتا ہے۔ خواتین اراکین پارلیمان اور سول سوسائٹی کی کوشش ہے کہ خواتین کے لیے نہ صرف خصوصی قوانین بنائیں جائیں بلکہ ان پر عمل درآمد کا طریقہ بھی وضع کیا جائے‘‘۔
خواتین کے خلاف جرائم کے مجوزہ قانون کا جو مسودہ گزشتہ ہفتے قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا تھا اس کے تحت کم عمر خواتین سے زبردستی کی شادی میں معاونت فراہم کرنے والوں کے لیے زیادہ سے زیادہ سزا کی حد 7 سال تجویز کی گئی۔
بل میں خواتین کی قران سے نکاح پڑھوانے کے جرم کی بھی سزا کا تعین کیا گیا جب کہ خواتین کو وراثت میں حصہ سے محروم رکھنے پر سزا کی زیادہ سے زیادہ حد 10 سال تجویز کی گئی ہے۔
اس بل کی منظوری میں تاخیر کی وجہ بیان کرتے ہوئے اراکین اسمبلی کا کہنا ہے کہ مجوزہ مسودے میں تحریر کی غلطیاں اور بعض شقوں کا آئینی تقاضوں سے متصادم ہونا ہے اور جوں ہی ان معاملات کو درست کرلیا جائے گا قانون بلا تاخیر منظور ہو جائے گا۔