رسائی کے لنکس

خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لیے قانون سازی اور عملی اقدامات کے لیے حکومت پرعزم


خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لیے قانون سازی اور عملی اقدامات کے لیے حکومت پرعزم
خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لیے قانون سازی اور عملی اقدامات کے لیے حکومت پرعزم

رپورٹ کے مطابق تشدد کی سب سے زیادہ شرح پنجاب میں سامنے آئی جہاں تقریبا ساڑھے پانچ ہزار واقعات ہوئے جبکہ کل واقعات میں سب سے زیادہ شرح اغواء کی رہی۔ عورت فاونڈیشن کا کہنا ہے کہ اس کا جائزہ صرف میڈیا میں رپورٹ شدہ واقعات کو ترتیب دے کر بنایا جاتا ہے اور سامنے نہ آنے والے واقعات کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔

حکمران جماعت پیپلزپارٹی کی خواتین اراکین اسمبلی کا کہنا ہے کہ حکومت عورتوں کے خلاف تشدد کی روک تھام کے لیے پرعزم ہے اور ملک کی نصف سے زائد آبادی کے حقوق کے تحفظ اور اُسے بااختیار بنانے کے لیے جلدہی مزید ٹھوس اقدامات اور قانون سازی کی جائے گی۔

وائس آف امریکہ سے انٹرویو میں حکمران جماعت کی ممبر قومی اسمبلی اور ریٹائرڈ جسٹس فخر النسا نے کہا کہ وفاقی سطح پر خواتین کے لیے محتسب کاایک الگ ادارہ قائم کیاجائے گا تاکہ وہ خواتین جو پولیس اور دیگر اداروں میں اپنے خلاف تشدد کی شکایات درج کرانے سے کتراتی ہیں اس ادارے میں بلا خوف خطر اپنے مسائل کے ازالے کے لیے رجوع کر سکیں گی۔

انہوں نے بتایا کہ وہ عنقریب قومی اسمبلی میں ایک بل بھی پیش کریں گی جس کا مقصد ذیلی عدالتوں کے انتظامی ڈھانچے میں خواتین کو نمائندگی دینا ہے تاکہ انصاف کی متلاشی عورتیں عدالتوں میں کم سے کم مشکلات سے دو چار ہوں۔

ریٹائرڈ جسٹس کے مطابق ” عورتوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے عزم کا واضح ثبوت گذشتہ تین سالوں میں کی جانے والی قانون سازی کے ساتھ ساتھ یہ بھی ہے کہ کئی اہم سیاسی عہدوں پر عورتوں ہی کو تعینات کیا گیا ہے تاکہ پسی ہوئی عورتوں کی فلاح وبہبود کے لیے کام کر سکیں“۔

پیپلز پارٹی ہی کی ایک اور ممبر قومی اسمبلی شہناز وزیر علی نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ ان کی پارٹی جلد پارلیمان میں ایک بل پیش کرے رہی جس سے تقریبا دو کروڑ ایسی خواتین کو فائدہ ہوگا جو گھروں میں کام کرتی ہیں۔

دوسری طرف شہری حقوق کے لیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیموں کا کہنا ہے کہ حکومت کی طرف سے جو بھی قوانین بنائے جاتے ہیں اس کا موثر نفاذ نا ہونے کی وجہ سے خواتین کے مسائل جوں کے توں ہیں اور حال ہے میں عورت فاونڈیشن کے جاری کردہ سالانہ جائزے کے مطابق 2010 میں تقریبا آٹھ ہزار خواتین کو مختلف نوعیت کے تشدد کا نشانہ بنایا گیا جو کسی بھی طرح گذشتہ سالوں کی نسبت ایسے واقعات میں کمی کو ظاہر نہیں کرتا۔

رپورٹ کے مطابق تشدد کی سب سے زیادہ شرح پنجاب میں سامنے آئی جہاں تقریبا ساڑھے پانچ ہزار واقعات ہوئے جبکہ کل واقعات میں سب سے زیادہ شرح اغواء کی رہی۔ عورت فاونڈیشن کا کہنا ہے کہ اس کا جائزہ صرف میڈیا میں رپورٹ شدہ واقعات کو ترتیب دے کر بنایا جاتا ہے اور سامنے نہ آنے والے واقعات کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔
تنظیم کا یہ بھی کہنا ہے کہ بڑی تعداد میں واقعات کی ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ بھی درج نہیں کرائی گئی جو تنظیم کے بقول پولیس پر عوام کے عدم اعتماد کو ظاہر کرتا ہے۔

لیکن دوسری طرف ایک اور غیر سرکاری تنظیم ”سسٹر ٹرسٹ پاکستان“ کی سربراہ ریحانہ ہاشمی کا کہنا ہے کے اس تمام صورتحال کے ذمے دار صرف ریاستی ادارے ہی نہیں بلکہ پاکستانی معاشرے میں رائج بہت سے فرسودہ رسم ورواج بھی ہیں جن کی وجہ سے خواتین تشددکا نشانہ بننے کے باوجود آواز بلند کرنے کی گھبراتی ہیں۔”یہ دو ہزار خواتین جو مری ہیں انہیں ریاست نے تو نہیں مارا نا ، کسی کو بھائی نے خاوند اور کسی کو باپ نے یا پھر خاندان کے کسی اور فرد نے مارا ہے لہذا ہمیں اپنے اجتماعی رویے بھے تبدیل کرنے کی ضرورت ہے“ ۔

XS
SM
MD
LG