اسلام آباد —
پاکستان کی ایک عدالت نے جمعرات کو توہین مقدسات کے مقدمے میں شواہد میں ردوبدل کے الزام میں گرفتار ایک اِمام مسجد کو ضمانت پر رہا کر دیا۔
اسلام آباد پولیس نے وفاقی دارالحکومت کے مضافاتی علاقے مہرا جعفر کے امام مسجد خالد جدون کو گزشتہ ماہ اس انکشاف کے بعد گرفتار کیا تھا کہ اُس نے مسیح لڑکی رمشا کے خلاف توہین اسلام کا مقدمہ قائم کرنے کے لیے اس کے کچرے کے تھیلے میں قرآنی اوراق ڈال دیے تھے۔
ملزم کے وکیل واجد گیلانی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اسلام آباد کی ضلعی عدالت نے
دو لاکھ روپے کے مچلکے جمع کرانے اور ایک شخص کی ضمانت پر ان کے موکل کو رہا کرنے کا حکم دیا ہے۔
تاہم انہوں نے کہا کہ سرکاری دفاتر کا وقت ختم ہونے کی وجہ سے خالد جدون کی رہائی جمعرات کو نا ہو سکی اور جمعہ کو رہائی ممکن ہو سکے گی۔
واجد گیلانی کا کہنا تھا کہ عدالت کے اس فیصلے کی ایک بڑی وجہ خالد جدون کے خلاف دو اہم گواہوں کا اپنے پہلے کے بیانات سے انحراف تھی۔
رواں ماہ کے پہلے ہفتے میں اویس اور خرم شہزاد نامی گواہوں نے اسی عدالت میں اپنے بیانات حلفی میں کہا تھا کہ انھوں نے پولیس کے دباؤ پر امام مسجد کے خلاف شواہد میں ردوبدل کا الزام لگایا تھا۔
اسلام آباد کے ایک نواحی گاؤں کی رہائشی رمشا مسیح کو پولیس نے 16 اگست کو مقامی آبادی کی شکایت پر توہین قرآن کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔
ذہنی طور پر غیر صحت مند اس لڑکی کی گرفتاری کے خلاف ملکی اور بین الاقوامی سطح پر شدید احتجاج کیا گیا تھا۔ پولیس کی تحقیقاتی رپورٹ میں اس کے خلاف شواہد نا ملنے کی تصدیق کے بعد عدالت نے رمشا کو ضمانت پر رہا کردیا۔
رہائی پر حکام نے رمشاء کو اس کے والدین سمیت نامعلوم مقام پر منتقل کردیا تھا۔
اس پاکستانی عیسائی لڑکی کے خلاف بچوں کی خصوصی عدالت ’جووینائل کورٹ‘ میں چلائے جانے والے مقدمے کی آئندہ سماعت جمعہ کو متوقع ہے۔
اسلام آباد پولیس نے وفاقی دارالحکومت کے مضافاتی علاقے مہرا جعفر کے امام مسجد خالد جدون کو گزشتہ ماہ اس انکشاف کے بعد گرفتار کیا تھا کہ اُس نے مسیح لڑکی رمشا کے خلاف توہین اسلام کا مقدمہ قائم کرنے کے لیے اس کے کچرے کے تھیلے میں قرآنی اوراق ڈال دیے تھے۔
ملزم کے وکیل واجد گیلانی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اسلام آباد کی ضلعی عدالت نے
دو لاکھ روپے کے مچلکے جمع کرانے اور ایک شخص کی ضمانت پر ان کے موکل کو رہا کرنے کا حکم دیا ہے۔
تاہم انہوں نے کہا کہ سرکاری دفاتر کا وقت ختم ہونے کی وجہ سے خالد جدون کی رہائی جمعرات کو نا ہو سکی اور جمعہ کو رہائی ممکن ہو سکے گی۔
واجد گیلانی کا کہنا تھا کہ عدالت کے اس فیصلے کی ایک بڑی وجہ خالد جدون کے خلاف دو اہم گواہوں کا اپنے پہلے کے بیانات سے انحراف تھی۔
رواں ماہ کے پہلے ہفتے میں اویس اور خرم شہزاد نامی گواہوں نے اسی عدالت میں اپنے بیانات حلفی میں کہا تھا کہ انھوں نے پولیس کے دباؤ پر امام مسجد کے خلاف شواہد میں ردوبدل کا الزام لگایا تھا۔
اسلام آباد کے ایک نواحی گاؤں کی رہائشی رمشا مسیح کو پولیس نے 16 اگست کو مقامی آبادی کی شکایت پر توہین قرآن کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔
ذہنی طور پر غیر صحت مند اس لڑکی کی گرفتاری کے خلاف ملکی اور بین الاقوامی سطح پر شدید احتجاج کیا گیا تھا۔ پولیس کی تحقیقاتی رپورٹ میں اس کے خلاف شواہد نا ملنے کی تصدیق کے بعد عدالت نے رمشا کو ضمانت پر رہا کردیا۔
رہائی پر حکام نے رمشاء کو اس کے والدین سمیت نامعلوم مقام پر منتقل کردیا تھا۔
اس پاکستانی عیسائی لڑکی کے خلاف بچوں کی خصوصی عدالت ’جووینائل کورٹ‘ میں چلائے جانے والے مقدمے کی آئندہ سماعت جمعہ کو متوقع ہے۔