پاکستان میں طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ پانچ سال سے کم عمر بچوں کو بروقت بیماریوں سے بچاؤ کے ٹیکے اور ویکسین کے کورس کروانے سے ہر سال بچوں کی شرح اموات میں قابل ذکر حد تک کمی لائی جاسکتی ہے۔
سرکاری اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں ہرسال پانچ برس سے کم عمر کے تقریباً چار لاکھ 85 ہزار بچے مختلف بیماریوں اور دیگر طبی پیچیدگیوں کا شکار ہو کر موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔
ملک میں امیونائزیشن کے سرکاری پروگرام کے نیشنل پروگرام مینیجر ڈاکٹر رانا محمد صفدر نے وائس آف امریکہ سے خصوصی گفتگو میں کہا کہ حفاظتی ٹیکوں اور ویکسین کے پروگرام پر باقاعدگی سے عمل درآمد سے قابل علاج امراض میں مبتلا ہو کر مرنے والے ہزاروں بچوں کی زندگیاں بچائی جاسکتی ہیں۔
’’ہمارے جو اہداف ہیں اس میں ہمیں 2015ء تک اپنے تمام بچوں میں 90 فیصد اس کی کوریج کرنی ہے اور اگر ہم یہ ہدف حاصل کرلیتے ہیں تو بچوں میں تقریباً 80 ہزار اموات سے بچاؤ میں کامیابی ہوگی۔‘‘
حفاظتی ٹیکوں کے کورس کے خاطر خواہ نتائج حاصل نہ ہوسکنے کی وجوہات میں ڈاکٹر صفدر کے نزدیک والدین کا اس ضمن میں بوجہ عدم تعاون بھی شامل ہے۔
’’ حکومت تمام چیلنجز کے باوجود تمام ویکسینز کی فراہمی کے لیے کوشاں ہے اور تمام مراکز صحت پر یہ مفت فراہم کی جارہی ہے لیکن بدقسمتی سے والدین کی طرف سے جو کوشش ہونی چاہیے وہ دیکھنے میں نہیں آتی۔ وہ خود ان مراکز جائیں اور مطالبہ کریں کہ یہ ویکسین ان کے بچوں کو ضرور دیں۔‘‘
پاکستان میں سرکاری سطح پر 1978ء میں بچوں کو نو مہلک بیماریوں سے بچاؤ کے لیے ویکسین پروگرام کا آغاز کیا گیا تھا۔ ایک حالیہ سروے میں بچوں کے لیے حفاظتی ٹیکوں اور ویکسین کے کورس کے دائرہ کار میں پیش رفت تو ظاہر کی گئی ہے جس کے مطابق سال 2006ء سے 2013ء کے دوران ملک میں اس کی شرح 47.3 فیصد سے بڑھ کر 53.8 فیصد تک پہنچ گئی۔
تاہم اب بھی نوزائیدہ اور کم سن بچوں کی ایک بڑی تعداد ایسی ہے جنہیں حفاظتی ٹیکوں کا کورس مکمل نہیں کروایا جاتا۔
ڈاکٹر صفدر کا کہنا تھا کہ سرکاری مراکز صحت میں مفت دستیاب ان ٹیکوں کے لیے والدین میں آگاہی اجاگر کرنے کے لیے بھرپور مہم چلانے کی ضرورت ہے۔
سرکاری اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں ہرسال پانچ برس سے کم عمر کے تقریباً چار لاکھ 85 ہزار بچے مختلف بیماریوں اور دیگر طبی پیچیدگیوں کا شکار ہو کر موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔
ملک میں امیونائزیشن کے سرکاری پروگرام کے نیشنل پروگرام مینیجر ڈاکٹر رانا محمد صفدر نے وائس آف امریکہ سے خصوصی گفتگو میں کہا کہ حفاظتی ٹیکوں اور ویکسین کے پروگرام پر باقاعدگی سے عمل درآمد سے قابل علاج امراض میں مبتلا ہو کر مرنے والے ہزاروں بچوں کی زندگیاں بچائی جاسکتی ہیں۔
’’ہمارے جو اہداف ہیں اس میں ہمیں 2015ء تک اپنے تمام بچوں میں 90 فیصد اس کی کوریج کرنی ہے اور اگر ہم یہ ہدف حاصل کرلیتے ہیں تو بچوں میں تقریباً 80 ہزار اموات سے بچاؤ میں کامیابی ہوگی۔‘‘
حفاظتی ٹیکوں کے کورس کے خاطر خواہ نتائج حاصل نہ ہوسکنے کی وجوہات میں ڈاکٹر صفدر کے نزدیک والدین کا اس ضمن میں بوجہ عدم تعاون بھی شامل ہے۔
’’ حکومت تمام چیلنجز کے باوجود تمام ویکسینز کی فراہمی کے لیے کوشاں ہے اور تمام مراکز صحت پر یہ مفت فراہم کی جارہی ہے لیکن بدقسمتی سے والدین کی طرف سے جو کوشش ہونی چاہیے وہ دیکھنے میں نہیں آتی۔ وہ خود ان مراکز جائیں اور مطالبہ کریں کہ یہ ویکسین ان کے بچوں کو ضرور دیں۔‘‘
پاکستان میں سرکاری سطح پر 1978ء میں بچوں کو نو مہلک بیماریوں سے بچاؤ کے لیے ویکسین پروگرام کا آغاز کیا گیا تھا۔ ایک حالیہ سروے میں بچوں کے لیے حفاظتی ٹیکوں اور ویکسین کے کورس کے دائرہ کار میں پیش رفت تو ظاہر کی گئی ہے جس کے مطابق سال 2006ء سے 2013ء کے دوران ملک میں اس کی شرح 47.3 فیصد سے بڑھ کر 53.8 فیصد تک پہنچ گئی۔
تاہم اب بھی نوزائیدہ اور کم سن بچوں کی ایک بڑی تعداد ایسی ہے جنہیں حفاظتی ٹیکوں کا کورس مکمل نہیں کروایا جاتا۔
ڈاکٹر صفدر کا کہنا تھا کہ سرکاری مراکز صحت میں مفت دستیاب ان ٹیکوں کے لیے والدین میں آگاہی اجاگر کرنے کے لیے بھرپور مہم چلانے کی ضرورت ہے۔