لڑکیاں اور خواتین عید پر چوڑیاں نہ پہنیں تو عید کی خوشی ادھوری رہ جاتی ہے۔ "چوڑیوں کو خواتین کے ہاتھوں تک پہنچانےکے لیے بہت سے ہاتھ دن رات محنت کرتے ہیں۔ " یہ کہنا تھا حید رآباد کی صائمہ بی بی کا جن کا خاندان چوڑی سازی کی صنعت سے وابستہ ہے۔"
کراچی کی ایک خاتون خانہ تسنیم نے ٹیلی فون پر وی او اے سےبات کرتے ہوئےکہا کہ ان کے خاندان میں کبھی ایسا نہیں ہوتا کہ گھر کی بچیاں اور خواتین خاص طور پر چاند رات پر چوڑیاں پہننے کے لیے مارکیٹ نہ جائیں۔
1947 میں برصغیر کی تقسیم کے بعد، نقل مکانی کرنے والے مسلمان جو بھارت کے شہر فیروز آباد میں چوڑیاں بناتے تھے اپنے فن کو حیدرآباد لے گئے جہاں لاکھوں لوگ اس صنعت پر انحصار کرتے ہیں۔
اس وقت پاکستان کا شہر حیدرآباد کانچ کی چوڑیوں کا گڑھ ہے، جہاں چوڑیاں تیار کرنے والی ایک بھٹی لوہے کی سلاخ کے گرد پگھلے ہوئے شیشے کے تار سے فی گھنٹہ 100 چوڑیاں تیار کر سکتی ہے۔
ایک ہی چوڑی بنانے میں ایک درجن سے زیادہ لوگ شامل ہو سکتے ہیں، جن میں گھسنے والی فیکٹریوں سے لے کر گھروں میں بیٹھ کر کام کرنے والے ڈیزائنرز تک شامل ہوتے ہیں، جو انہیں مہارت سے ہاتھ سے سجاتے ہیں۔
فیکٹریوں میں چوڑیاں تیار کرنے کا کام بہت مشکل اور دقت طلب ہوتا ہے -- مزدوروں کو غیر منظم فیکٹریوں میں انتہائی سخت درجہ حرارت کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔
حیدرا ٓباد کی ایک فیکٹری میں کام کرنے والے 24 سالہ سمیر نے اے ایف پی کو بتایا کہ " یہ کام پنکھے کے بغیر ہوتا ہے۔ اگر ہم پنکھا چلاتے ہیں تو آگ بجھ جاتی ہے۔ اس لیے گرمی کی شدت بہت زیادہ ہوتی ہے۔ جیسے جیسے یہ گرم ہوتا ہے ہمارا کام سست ہوجاتا ہے۔"
انہوں نے چوڑی سازی کی مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ان کے علاقے میں بجلی بار بار چلی جاتی ہے ، جبکہ شیشے کے نازک دھاگے آسانی سے ٹوٹ سکتے ہیں۔
کچھ عرصہ قبل یونیسیف کی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ تنگ گلیوں اور کچے مکانات میں گھنٹوں آگ کے بہت قریب یا چراغ کے لو کی گرمائش کے ساتھ بند پنکھوں میں بیٹھ کر گرمی اور حبس کے ماحول میں کام کرنے سے یا پھر میناکاری کے ذریعے کیمیکل کا مسلسل استعمال اور کٹائی کے دوران شیشے کے ذرات انگلیوں میں پیوست ہوجانےکے بعد علاج نہ ہونے پر چوڑی کی صنعت میں کام کرنے والے لوگ ٹی بی، دمہ ، نابینا پن یا پھر جوڑوں کے درد کی بیماری کا شکار ہو سکتے ہیں ۔
زیادہ تر چوڑیاں سادہ گول شکل میں گھروں میں چوڑی کی صنعت سے وابستہ خواتین کےپاس بھیج دی جاتی ہیں جو انہیں ڈیزائن کرنے سے لے کر موتیوں سے سجانے تک کاکام کرتی ہیں اور اپنی ہنر مندی سے ان چوڑیوں کو مارکیٹ تک پہنچنےسے پہلے چمک دمک اور خوبصورت شکل دیتی ہیں۔ عام طور پر گھر میں بنے ان چھوٹے چھوٹے ورکشاپس میں یہ کام فیملی مل کر کرتی ہے۔۔
صائمہ بی بی جو گھر سے کام کرتی ہیں اور اپنے تین بچوں کے ساتھ مل کر اس کے بعد چوڑیوں پر موتی سجاتی ہیں جب وہ اسکول سے واپس آجاتے ہیں ۔ جب کہ ان کے شوہر بھٹیوں پر چوڑی سازی کا کام کرتے ہیں۔
صائمہ نے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان خوبصورت اور مختلف رنگوں سےچمکتے دمکتے ڈیزائنز سے آراستہ چوڑیوں کو خواتین کے ہاتھوں تک پہنچنے سے پہلے بہت سے ہنر مند ہاتھ انہیں وہ رنگ ، چمک دمک اور ڈیزائنز دینے کے لیے دن رات کام کرتے ہیں
42 سالہ طلعت زاہد چوڑیوں کو سجانے کے لیے حیدر آباد میں اپنے گھر میں بنے چوڑی ورکشاپ میں موتیوں، سلائیوں اور کڑھائی کا استعمال کرتی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ "فیشن کا رجحان کچھ بھی ہو، جب ہم کسی بھی تقریب میں شرکت کرتے ہیں اور کوئی بھی لباس پہنتے ہیں تو یہ چوڑیوں کے بغیر ادھورا محسوس ہوتا ہے۔ "
"یہاں تک کہ اگر آپ زیورات نہیں پہنتے لیکن اپنے لباس کے ساتھ چوڑیاں یا بریسلٹ پہنتے ہیں، تو لباس مکمل نظر آتا ہے۔"انہوں نے کہا۔
شیشے کی یہ چوڑیاں اکثر درجن کے حساب سے فروخت ہوتی ہیں، جو تقریباً ڈیڑھ سو روپے سے شروع ہوتی ہیں اور پتھر اور ریشم کے شامل ہونے پر ان کی قیمت 1,000 روپے تک بڑھ جاتی ہیں۔
ایک وقت تھا کہ جب پاکستان میں چوڑیاں پہنانے والی خواتین گھر گھر چا کر خواتین کو چوڑیاں فروخت کرتی تھیں ۔ بہت سے گھرانوں میں اپنی خواتین اور بچیوں کو مردوں سے چوڑیاں پہنانا معیوب سمجھا جاتا تھا اور ابھی تک کچھ گھرانوں میں اسے معیوب سمجھا جاتا ہے ۔
لیکن اب پاکستان بھر میں خواتین کی سہولت کےلیے ایسی دکانوں میں اضافہ ہو رہا ہے جہاں خواتین ہی چوڑیاں فروخت کرتی ہیں اور ان دکانوں پر خواتین زیادہ سکون اور اطمعنان سے چوڑیوں کی خریداری کر سکتی ہیں۔
حکومت کی جانب سے سبسڈی میں کمی کے بعد گیس کی بڑھتی ہوئی قیمتوں نے بہت سی فیکٹریوں کو بند کرنے یا کم اوقات میں کام کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔
چاس سالہ محمد نفیس نے،جو حیدرآباد میں چوڑی سازی کی ایک فیکٹری کےمالک ہیں بتایا کہ ، "جس رفتار سے حکومت نے گیس کی قیمتوں اور ٹیکسوں میں اضافہ کیا ہے، ہمارے علاقے میں چوڑی سازی کا کام پھیلنے کے بجائے سکڑنا شروع ہو گیا ہے۔ "
اس رپورٹ کا مواد اے ایف پی سے لیا گیا ہے۔
فورم