پاکستان کی پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کا آغاز بدھ کی سہ پہر سے ہو رہا ہے جس میں سیاسی صورتِ حال اور ملک کو درپیش مسائل پر بحث کی جائے گی۔
حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کی اتحادی جماعتوں کی رائے پر بلائے گئے اس اجلاس میں حکومت کو درپیش سیاسی و انتظامی چیلنجز سے نمٹنے کی حکمت عملی وضع کی جائے گی۔
کشیدہ سیاسی صورت حال کے تناظر میں پارلیمنٹ کے اس اجلاس کو اہمیت کی نگاہ سے دیکھا جارہا ہے۔
اجلاس کے جاری ایجنڈے کے مطابق قومی اداروں کے احترام اور ملک میں امن و امان کی صورتِ حال پر بحث کی جائے گی۔
اجلاس میں خارجہ پالیسی، معاشی صورتِ حال اور موسمیاتی تبدیلی پر بھی بحث ہو گی اور بتایا جارہا ہے کہ افواج پاکستان اور اس کی قیادت کے خلاف سوشل میڈیا پر ہرزہ سرائی کے خلاف مذمتی قرارداد بھی منظور کی جائے گی۔
پیر کو وزیر اعظم شہباز شریف کی سربراہی میں رات دیر تک جاری رہنے والے اجلاس میں اتحادی حکومت کے رہنماؤں نے ریاستی عمل داری یقینی بنانے کے لیے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں اہم فیصلے کرنے پر اتفاق کیا تھا۔
ذرائع ابلاغ میں یہ قیاس آرائیاں بھی کی جارہی ہیں کہ حکومت تحریک انصاف کے خلاف انتظامی کارروائی یا پابندی کی قرارداد بھی لاسکتی ہے۔
پی ٹی آئی کے مرکزی رہنما فواد چوہدری نے بھی اس خدشے پر بات کرتے ہوئے کہا کہ اگر پی ٹی آئی پر پابندی لگانے کی کوشش ہوئی تو ایسا ردِ عمل ہو گا جو آپ سوچ بھی نہیں سکتے۔
خیال رہے کہ لاہور میں عمران خان کہ رہائش گاہ کے باہر پولیس اور پی ٹی آئی کارکنان کے درمیان جھڑپوں کے بعد مسلم لیگ (ن) کے بعض رہنماؤں نے تحریک انصاف پر پابندی لگانے کے بیانات دیے تھے۔
انہی قیاس آرائیوں پر تبصرے کرتے ہوئے امریکہ کے سابق نمائندہ خصوصی برائے افغانستان زلمے خلیل زاد نے کہا کہ ایسے اشارے مل رہے ہیں کہ پاکستان کی پارلیمنٹ جس پر حکومتی اتحاد کا کنٹرول ہے آئندہ چند روز میں پی ٹی آئی پر پابندی لگا سکتی ہے۔
اپنی ٹوئٹ میں انہوں نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ حکومت نے عمران خان کو ریاست کا دشمن نمبر ایک بنانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔
یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ زلمے خلیل زاد نے پاکستانی سیاست کے بارے میں بات کی ہو۔ گزشتہ ہفتے انہوں نے حکومت کو سیاسی بحران کے خاتمے کے لیے جلد انتخابات کروانے کا مشورہ دیا تھا۔
زلمے خلیل زاد کے اس بیان پر وفاقی وزیر احسن اقبال نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سابق امریکی سفیر کو پاکستان کی سیاست پر تبصرے کرنے کے بجائے امریکہ کی داخلی سیاست تک محدود رہنا چاہیے۔
امریکی سینیٹر جیکی روزن نے بھی پاکستان کی سیاسی صورتِ حال پر اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ انہیں پاکستان میں بڑھتے ہوئے سیاسی تشدد پر تشویش ہے۔
اپنی ٹوئٹ میں انہوں نے تمام جماعتوں سے اختلافات کو پرامن طریقے سے حل کرنے اور قانون کی حکمرانی اور جمہوریت کی پاسداری کرنے کا مطالبہ کیا۔
منگل کو پی ٹی آئی کے مرکزی رہنما اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اسلام آباد میں مختلف یورپی اور اسلامی ممالک کے سفارت کاروں سے ملاقات کی اور انہیں پاکستان کی سیاسی صورتِ حال سے آگاہ کیا۔
حکومتی اتحادی رہنماؤں کے اجلاس میں لیے گئے فیصلوں کی روشنی میں حکومت نے پولیس اور عدالت پر پی ٹی آئی کارکنوں کے حملوں کی تحقیقات کے لیے مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دینے کا بھی اعلان کیا ہے۔
تجزیہ نگار حسن عسکری کہتے ہیں کہ حکومت اپنے سیاسی ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں قرارداد منظور کروا سکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ چوں کہ پی ٹی آئی کے اراکین، قومی اسمبلی سے مستعفی ہوچکے ہیں اور وہ صرف ایوان بالا میں نمائندگی رکھتے ہیں تو حکومت کو کسی قرارداد یا سادہ اکثریت سے قانون سازی میں کوئی رکاوٹ نہیں ہوگی۔
تاہم انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے سیاسی انتشار اور ملکی حالات میں بہتری کے کوئی امکان نظر نہیں آتے ہیں۔
تجزیہ نگار سجاد میر نے کہا کہ صورتِ حال اس حد تک گھمبیر ہوچکی ہے کہ اس کا حل پارلیمنٹ سے بھی نکلتا دکھائی نہیں دیتا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ہوسکتا ہے کہ حکومت بھی پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں سخت فیصلے لے تاکہ ان فیصلوں کو اسٹیبلشمنٹ کے بجائے منتخب نمائندوں کا فیصلہ قرار دیا جائے۔