اس سال کے آخر تک، افغانستان کے ساتھ پاکستان کی زیادہ تر غیر محفوظ سرحد پر ’’حساس علاقوں‘‘ میں یکطرفہ طور پر باڑ لگانے کا کام مکمل کرلیا جائے گا۔ حکام نے جمعے کے روز ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ اس اقدام کے نتیجے میں سرحد کے آرپار دہشت گردوں کی دراندازی رک جائے گی۔
فوج کی سرپرستی میں 2611 کلومیٹر طویل پوری مغربی سرحد پر باڑ لگانے کے بڑے منصوبے کی تعمیر جاری ہے، جس میں نئی چوکیوں کے ساتھ ساتھ قلعوں کی تعمیر شامل ہے، جو کام ایک سال قبل ہاتھ میں لیا گیا۔
ابتدائی طور پر مربوط سرحدی سکیورٹی کے منصوبے میں اُن علاقوں کو نظر میں رکھا گیا، جنھیں پاکستانی اہلکاروں نے دہشت گردوں کی دراندازی اور غیر قانونی طریقے سے آرپار آنے جانے سے روکنا مقصود تھا؛ اور جس کے لیے اُن کا کہنا تھا کہ نفری کی کمی کے باعث افغان افواج کی موجودگی نہ ہونے کے برابر ہے۔
فوج کے ترجمان، میجر جنرل آصف غفور نے ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ ’’دسمبر 2018ء تک حساس علاقوں پر باڑ لگ چکی ہوگی۔ باقی سرحد پر دسمبر 2019 تک کام مکمل کر لیا جائے گا‘‘۔
اُنھوں نے بتایا کہ 310 کلومیٹر کے سرحدی علاقے میں تین میٹر طویل دوہری ’چین لنک فینس‘ تعمیر ہوگی، جس کے درمیان دو میٹر کا خلا ہوگا جس کے اوپرخاردار تار لگی ہوئی ہوگی۔
اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے، جنرل نے کہا کہ نئی تنصیات کی تعمیر مکمل ہونے پر افغان سرحد کے ساتھ نیم فوجی ’فرنٹیئر کور‘ کی فورس کے نئے یونٹ بھرتی اور تعینات کیے جائیں گے۔
تاہم، جنرل غفور نے یہ نہیں بتایا کہ بالآخر سرحد پر کتنے اہلکار تعینات ہوں گے، اور اُنھوں نے ذرائع ابلاغ میں آنے والی اِن اطلاعات کو مسترد کیا جن میں کہا گیا تھا کہ اضافی فوجوں کی تعداد 60،000تک ہوگی۔
اس جانب توجہ دلاتے ہوئے، جنرل نے کہا کہ ’’ہاں۔ ایف سی کے نئے یونٹ اتنے ہوں گے کہ ضرورت پوری ہو؛ اور سرحد کے ساتھ فوج کی تعیناتی میں کمی کی جا سکے‘‘۔