افغان حکام کا کہنا ہے کہ اُنہوں نے پاک افغان سرحد پر ہونے والی جھڑپ کے بعد ہلاک ہونے والے پانچ پاکستانی فوجیوں کی لاشیں اور گرفتار ہونے والے پاکستانی فوجی کو پاکستانی حکام کے حوالے کر دیا ہے۔
افغانستان کے مغربی صوبے خوست کے گورنر حکم خان حبیبی نے مبینہ طور پر کہا ہے کہ ہلاک شدہ اور زندہ پاکستانی فوجیوں کی واپسی خوست صوبے کے زازی میدان ڈسٹرکٹ سے تعلق رکھنے والے قبائلی زعماء کی مصالحتی کوششوں کے نتیجے میں ہوئی ہے۔
افغان سیکورٹی حکام کا کہنا ہے کہ اس لڑائی کے دوران افغانستان کے دو پولیس افسر بھی ہلاک ہوئے ہیں۔ دونوں فریقین میں بعد میں فائر بندی کا سمجھوتہ طے پا گیا۔ دونوں فریق حملے کی ذمہ داری ایک دوسرے پر عائد کرتے ہیں۔
چند روز قبل پاکستانی وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے افغان صدر اشرف غنی کی دعوت پر افغانستان کا ایک روزہ دورہ کیا تھا جس میں اُن کی افغان صدر اور چیف ایگزیکٹو سمیت تمام سٹیک ہولڈرز سے ملاقاتیں ہوئی تھیں جس کے بعد بظاہر دونوں طرف سے تیز و تند بیانات کا سلسلہ تھم گیا تھا اور تجزیہ کار اس اُمید کا اظہار کرنے لگے تھے کہ شاید پاکستان اور افغانستان کے درمیان اختلافات بتدریج کم ہو جائیں گے۔ تاہم اس سرحدی جھڑپ کے بعد بظاہر صورت حال پھر کشیدہ ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔
پاکستانی حکام کا کہنا تھا کہ یہ حملہ افغان صوبے خوست سے کیا گیا اور اس کا نشانہ سرحد کے قریب خیبر ایجنسی کے علاقے لاکا ٹیکا میں موجود پاکستانی چوکی تھا۔
پاکستانی فوج کے ترجمان ادارے آئی ایس پی آر نے کل ہفتے کے روز بتایا تھا کہ پاکستانی فوجیوں پر فائرنگ اُس وقت کی گئی جب وہ پاک افغان سرحد کے ساتھ نگرانی کے معمول کے گشت پر تھے جہاں وہ دراندازی کے ممکنہ راستوں کو بند کرنے اور سرحد پر باڑ لگانے کیلئے تیاری کر رہے تھے۔
اپنے بیان میں آئی ایس پی آر نے یہ بھی کہا کہ پاکستان اس حملے کے حوالے سے انتہائی ضبط سے کام لے رہا ہے تاکہ افغانستان میں شہریوں کو کسی قسم کا نقصان نہ پہنچے۔
اس صورت حال کے نتیجے میں بنگش اور دیگر قبائل سے تعلق رکھنے والے سیکڑوں قبائلی بھی پاکستان کی سیکورٹی فورسز کا ساتھ دینے کیلئے سرحد کی جانب مارچ کرتے ہوئے پاکستانی چوکیوں پر پہنچ گئے۔
تاہم افغان پولیس کے مقامی عبوری سربراہ کرنل عبدالحنان زدران نے وائس آف امریکہ کی افغان سروس کو ایک سکائپ انٹرویو میں بتایا ہے کہ پاکستانی فوجیوں نے سرحد پار کر کے افغان چوکیوں پر راکٹ اور گولیاں برسانی شروع کر دی تھیں اور ہم نے اپنا دفاع کرتے ہوئے دو پاکستانی فوجیوں کو ہلاک کر دیا اور دو کو حراست میں لے لیا۔ افغان پولیس کے عبوری سربراہ کا کہنا تھا کہ یہ حملہ پاکستانی فوجیوں کی جانب سے کیا گیا اور اگر ایسا واقعہ دہرایا گیا تو افغانستان ایک بار پھر اپنا بھرپور دفاع کرے گا۔
یوں یہ ابہام برقرار ہے کہ پہل کس جانب سے ہوئی اور اس جھڑپ سے کس نے کیا مقصد حاصل کیا۔
کرم ایجنسی کی سرحد افغانستان کے تین صوبوں سے متصل ہے۔ اس وجہ سے یہ علاقہ انتہائی حساس ہے۔ پاکستان نے افغانستان کے ساتھ سرحد پر باڑ لگانے کا کام گزشتہ برس شروع کیا تھا تاکہ پاک افغان سرحد پر دہشت گردوں کی آمدورفت کو روکا جا سکے تاہم افغان حکومت ڈیورنڈ لائن کو سرحد تسلیم نہیں کرتی اور اس اقدام کی سختی سے مخالفت کرتی ہے۔