پاکستانی سیاست ایک نئے موڑ پر ہے جہاں ایک بار پھر سب کی نظریں سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب مرکوز ہیں۔ عدالت پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اور جنرل سیکرٹری جہانگیر خان ترین نااہلی کیس کا فیصلہ کل (جمعے کو) سنائے گی۔
چیف جسٹس ثاقب نثار کی سر براہی میں جسٹس عمر عطاء بندیال اور جسٹس فیصل عارب نے 42 سماعتوں کے بعد فیصلہ محفوظ کیا۔
مسلم لیگ (ن) کے رہنما حنیف عباسی کی جانب سے چیرمین تحریک انصاف عمران خان اور جہانگیر ترین کی نااہلی کے لیے سپریم کورٹ میں 2 درخواستیں دائر کی تھیں ،جن کا فیصلہ جمعہ کے روز دن 2 بجے سنایا جائے گا۔
اس سے قبل 14 نومبر کو چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں عمران خان نااہلی کیس کی سماعت کے دوران اپنے ریمارکس میں چیف جسٹس ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ ’’دیکھنا یہ ہے کہ کیا عمران خان بے ایمان آدمی ہیں کہ نہیں جب کہ سالوں بعد کاروباری لین دین میں قانون کی خلاف ورزی پر کسی کو نااہل کیسے کردیں‘‘۔ بعد ازاں عدالت نے کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا تھا۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور راولپنڈی سے سابق رکن قومی اسمبلی حنیف عباسی نے عمران خان اور جہانگیر ترین کے خلاف 2 درخواستیں دائر کر رکھی ہیں جن میں انہوں نے مؤقف اپنایا ہے کہ چیرمین پی ٹی آئی کو آرٹیکل 63، 62 کے تحت نااہل کیا جائے کیوں کہ انہوں نے 2013 میں اپنے کاغذات نامزدگی میں مبینہ طور پر بنی گالہ کی اراضی سے متعلق غلط بیانی سے کام لیا۔
حنیف عباسی نے درخواستوں میں مؤقف اختیار کیا کہ عمران خان نے نیازی سروسز کمپنی ظاہر نہیں کی جو آف شور بنائی گئی، اسی طرح بنی گالہ اراضی خریداری کے بارے میں بھی درست معلومات فراہم نہ کرکے الیکشن کمیشن کے سامنے غلط بیانی کے مرتکب ہوئے۔
حنیف عباسی کی درخواست کے مطابق، عمران خان نے غیر ملکی ممنوعہ فنڈز حاصل نہ کرنے کا جھوٹا بیان حلفی الیکشن کمیشن میں جمع کرایا، عمران خان کی پارٹی فارن فنڈنگ سے چلتی ہے جب کہ پاکستان کے قانون کے تحت کوئی بھی فارن فنڈنگ پارٹی ملک میں انتخابات لڑنے کی اہل نہیں ہوسکتی۔
حنیف عباسی نے جہانگیر ترین کے خلاف آف شور کمپنی قائم کرنے اور انتخابی گوشواروں میں اثاثے ظاہر نہ کرنے کے الزامات عائد کرتے ہوئے درخواست دائر کی تھی۔ اس حوالے سے کیس کی سماعت کے دوران ایک موقع پر جہانگیر خان ترین کے وکیل نے آف شور کمپنی کو ٹرسٹ کے ماتحت قرار دیا اور کہا کہ صرف ان کے بچے بینی فشل ہیں، جبکہ بعد ازاں دستاویزات کے مطابق جہانگیر ترین خود اور ان کی اہلیہ تاحیات بینفشری ثابت ہوئے۔
جہانگیر ترین کے خلاف درخواست میں کہا گیا ہے کہ لندن میں جائیداد اور زرعی زمین سے آمدن کے بارے میں الیکشن کمیشن سے جھوٹ بولا گیا، جبکہ انکم ٹیکس گوشواروں میں مختلف آمدنی ظاہر کرکے جہانگیر ترین صادق اور امین نہیں رہے اس لیے آرٹیکل باسٹھ ون ایف کے تحت نااہل قرار دیا جائے۔
عمران خان اور جہانگیر ترین نا اہلی درخواستیں دو نومبر 2016 کو دائر ہوئیں، ایک سال اور سات روز کی مدت میں دونوں مقدمات کی سماعت مکمل ہوئی اور فیصلہ محفوظ کیا گیا۔
یہ فیصلہ عمران خان کے خلاف آنے پر سیاست نیا رخ اختیار کرسکتی ہے، کیونکہ عمران خان نے فیصلہ اپنے خلاف آنے کی صورت میں سیاست چھوڑنے کا اعلان کر رکھا ہے، جبکہ اگر یہ فیصلہ ان کے حق میں آیا تو ان کے مخالفین کو سپریم کورٹ کے خلاف محاذ آرائی کا نیا موقع مل سکتا ہے، جبکہ آئندہ سال ہونے والے انتخابات پر بھی یہ فیصلہ اثرانداز ہوگا۔