یہ چلتا پھرتا سکول پچھلے کئی سالوں سے 14 افراد پر مشتمل رضا کاروں کی ایک غیر سرکاری تنظیم چلڈرن فاؤنڈیشن ایجوکیشن ڈویلپمنٹ کی سرپرستی میں کام کر رہا ہے۔ ادارے کی ایک رکن ریحانہ عالم نے وائس آف امریکہ کو بتا یا کہ تعلیم کی کمی پاکستان میں بے شمار مسائل کا سبب بن رہی ہے اور اس موبائل درسگاہ کے ذریعے اُن کا مشن ایسے بچوں کو علم کے زیور سے آراستہ کرنا ہے جو پڑھنے کی خواہش تو رکھتے ہیں لیکن وسائل کی کمی کی وجہ سے سکول نہیں جاسکتے۔
اس موبائل درس گاہ کی ابتداکیسے ہوئی ریحانہ عالم بتاتی ہیں کہ ” موبائل اسکول میں پڑھنے والے بچوں کی اکثریت کا تعلق دوسرے شہروں سے ہے جن کے والدین روز گار کے سلسلے میں کراچی آبسے ہیں۔ ہم نے کچی آبادیوں میں جا کر ایسی خواتین ڈھونڈیں جو میٹرک پاس ہوں تاکہ اپنے گھروں میں ہی کچھ دیر کے لیے بچوں کو پڑھادیا کریں۔لیکن اس طرح کی بچیاں ملنا مشکل ہیں یا ان کے گھر اتنے بڑے نہیں ہیں یایہ بھی ہوتا ہے کہ لوگ ایک جگہ زیادہ دن نہیں رہتے ۔ پھر اسکول کیسے چل سکتا ہے تو اس مشکل کے بناء پر یہ سوچا گیا کہ ایک بس خریدتے ہیں اور اس کے اندر پہلے کی سیٹیں ہٹا کر ڈیسک اور چےئرز لگا دیتے ہیں اور پھر ایک ڈرائیور ہو اور ایک ٹیچر ہو اور وہ کچی آبای میں جائے وہاں پر بچوں کو پہلے سے پتہ ہو کہ ان کو کس وقت آنا ہے اور وہ بیٹھ کر پڑھ لیں۔“
کسی بھی اسکول میں پائی جانے والی تقریباًتمام سہولیات موبائل اسکول میں موجودہیں۔یہاں روزانہ 160 بچے دوگھنٹوں پر مشتمل چار مختلف شفٹوں میں اردو ، انگریزی اور ریاضی کی بنیادی تعلیم حاصل کرتے ہیں ۔ ایک سال کے بعد ان کے شوق کو دیکھتے ہوئے رضاکاروں کا یہ گروپ انھیں باقاعدہ مختلف اسکولوں میں داخل کرادیتا ہے اور پھر ان کی تعلیم مکمل ہونے تک تمام اخراجات اٹھائے جاتے ہیں۔
اس کے علاہ ادارے کے رضاکاربچوں کو ایسے صلاح و مشورے بھی باقاعدگی سے دیتے ہیں جو باآسانی نئے راستوں کا انتخاب کر نے میں اُن کی مدد کرتے ہیں۔ ریحانہ کا کہنا ہے کہ ضروری نہیں کہ موبائل اسکول سے پڑھنے والا ہر بچہ بہت کامیاب ہو لیکن وہ اس قابل ضرور ہوجاتا ہے کہ اپنے لیے جائز طریقے سے روزی کماسکے اور زندگی کو ایک نئے رنگ میں ڈھال سکے۔
سمعیہ نے کئی برس پہلے موبائل اسکول میں قدم رکھا اور آج وہ کالج کی طالبہ ہونے کے ساتھ اپنے گھر پر دیگر بچوں کو بھی پڑھا رہی ہیں۔وہ کہتی ہیں کہ ” اگر موبائل اسکول نہ ہوتا تو مجھ میں اتنا شعور نہیں ہوتامیں اپنی تعلیم شروع ہی نہ کرپاتی اور ان پڑھ رہ جاتی۔موبائل اسکول نے ہماری زندگی بدل دی ۔ میں اب اپنی تعلیم جاری رکھے ہوئے ہوں ۔ مجھ میں شعور ہے اور زندگی کو ایک مقصد مل گیا ہے۔“
پاکستان میں معاشرتی روایات کے زیرِ اثر عموماً خواتین تعلیم حاصل کر کے ملازمت کی بجائے گھروں میں بیٹھ جاتی ہیں یا پھر ان کی شادی کردی جاتی ہے جس کے بعد بھی انھیں گھر سے باہر ملازمت کی اجازت نہیں ملتی۔ ریحانہ کا کہنا ہے کہ گھر میں ہی رہ کر تعلیم کو غریب بچوں تک پہنچانے میں ایسی خواتین بہت مثبت کردار ادا کرسکتی ہیں۔یا تو وہ کسی ادارے میں جا کر مدد کریں لیکن اگر یہ نہ ہو تو گھر میں کام کرنے والی ملازمہ ہو تو اس کے بچوں کو پڑھادیں یاخوداسے پڑھالکھا بنادیں ۔اگر ہم تھوڑا تھوڑا کریں توپاکستان ترقی کی منزل کی طرف گامزن ہونے لگے گا۔
اس سوال پر کہ موبائل اسکول کے لیے اسی علاقے کا ہی انتخاب کیوں کیا گیا اور اس تصور کو مزید وسعت کیو ں نہیں دی گئی ریحانہ کا کہنا ہے کہ کسی بھی اسکول کو کامیابی سے چلانے کے لیے اسکول چلانے کے لیے اس کی باقاعدہ نگرانی کرنا بھی ضروری ہے تب ہی جا کر مطلوبہ فوائد ملتے ہیں۔”ہم کورنگی میں یا دیگر علاقوں میں بھی اسکول کھول سکتے ہیں لیکن دور ہونے کی وجہ سے ہم وقت نہیں دے سکتے ۔ وہاں اسکول تو چلتا رہے گا لیکن بچوں کو صحیح تعلیم دینے کا ہمارا اصل مقصد بے کار ہوجائے گا ۔“
پاکستان اس وقت بے شمارمعاشی اور سماجی مسائل کا شکار ہے لیکن سنجیدگی سے کوشش کرنے والوں کے لیے ہر مسئلے کا کوئی نہ کوئی حل ضرور موجود ہوتا ہے۔ ریحانہ کے بقول اگرچہ ہر شخص کی ذمہ د اری ہے کہ وہ معاشرے میں تعلیم کے فروغ کے لیے اپنی سی کوشش ضرور کرے لیکن صحیح معنوں میں نتائج تب ہی سامنے آئیں گے جب حکومت بھی سنجیدگی سے اس مقصد کا حصہ بنے تاکہ علم غریب بچوں کی دہلیز تک بھی پہنچ سکے۔