معلومات تک رسائی کے مسودۂ قانون کو پاکستان کے ایوانِ بالا "سینیٹ" نے متفقہ طور پر منظور کر لیا ہے۔
قومی اسمبلی سے منظوری اور پھر صدر کے دستخط کے بعد یہ قانون نافذ العمل ہو سکے گا۔ لیکن سینیٹ سے اس کی منظوری کو بھی سیاسی و سماجی حلقے آئین میں شہریوں کو معلومات تک رسائی کے حق کو یقینی بنانے کی طرف ایک اہم قدم قرار دیتے ہیں۔
اس بل کے تحت کوئی بھی شہری تحریری طور پر سرکاری معلومات حاصل کرنے کی درخواست دے سکتا ہے جس پر متعلقہ حکام کو 10 روز میں جواب دینا ہوگا۔
لیکن یہ معلومات ایسی نہیں ہونی چاہئیں جو قومی سلامتی، دوست ممالک کے ساتھ تعلقات، کسی کی نجی زندگی یا خاندان کے لیے نقصان دہ ہوں۔
اگر درکار معلومات کو جمع کرنے میں وقت صرف ہونا ہو تو متعلقہ حکام درخواست موصول ہونے کے 20 روز کے اندر اندر اس کا جواب دینے کے پابند ہوں گے۔
اس بل کی ایک شق میں یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ اگر کوئی ایسی معلومات درکار ہوں جس کا تعلق کسی کی آزادی یا زندگی کے تحفظ کے لیے ہو تو اس پر تین روز کے اندر اندر عمل درآمد ضروری ہے۔
اگر شہری کو متعلقہ حکام معلومات دینے سے انکار کرتے ہیں تو وہ اس کے خلاف خصوصی کمیشن میں اپیل دائر کر سکتا ہے جس میں حکام کو معلومات فراہم نہ کرنے کی وجوہات بتانا ہوں گی۔
یہ کمیشن تین رکنی ہو گا جس میں ہائی کورٹ کے ایک جج، سرکاری گریڈ 22 یا اس کے مساوی سرکاری عہدیدار اور سول سوسائٹی کا ایک نمائندہ شامل ہوں گے جن کا تقرر وزیراعظم کریں گے۔
مزید برآں مسودۂ قانون کے مطابق اگر کوئی شخص جان بوجھ کر معلومات تک رسائی میں رکاوٹ ڈالتا ہے تو اسے 50 ہزار روپے تک جرمانہ جب کہ دانستہ طور پر کوئی ریکارڈ ضائع کرنے والے کو ایک لاکھ روپے تک جرمانے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔