سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے امور داخلہ کے چیئرمین اور سابق وفاقی وزیر داخلہ رحمٰن ملک نے مطالبہ کیا ہے کہ پاکستان کے قانون میں ترمیم کی جائے تاکہ 14 سال سے کم عمر بچوں کا جنسی استحصال کرنے والے مجرموں کو سر عام پھانسی دی جا سکے۔
بدھ کو سینیٹ کو لکھے گئے ایک خط میں ان کا کہنا تھا کہ قائمہ کمیٹی پہلے ہی یہ مجوزہ ترمیم منظور کر چکی ہے جس میں تعزیرات پاکستان کی دفعہ 364-اے میں ترمیم کر کے اس میں سر عام پھانسی کے الفاظ شامل کرنے کا کہا گیا ہے۔
رحمٰن ملک نے درخواست کی کہ سینیٹ کے رواں اجلاس میں ہی اس بابت بل پیش کیا جائے اور ان کے بقول کم سن بچی زینب کے قاتل کو سر عام پھانسی دے کر عبرت کا نشان بنایا جائے۔
فی الوقت رائج دفعہ 364-اے کے تحت بچوں کے اغوا ان کے قتل اور نقصان پہنچانے والے کے لیے موت کی سزا ہے لیکن قائمہ کمیٹی نے فوجداری قانون ترمیمی ایکٹ 2018ء کے عنوان سے ایک تجویز منظور کی تھی جس میں سرعام پھانسی کا تذکرہ کیا گیا تھا۔
سات سالہ بچی زینب سے زیادتی اور قتل کے ملزم کی گرفتاری کا اعلان کرتے ہوئے منگل کو وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے بھی کہا تھا کہ اگر ان کے بس میں ہو تو وہ اس گھناؤنے جرم کا ارتکاب کرنے والے کو سر عام پھانسی دے دیں لیکن ان کے بقول اس معاملے پر قانون کے مطابق ہی آگے بڑھا جا سکتا ہے۔
سوشل میڈیا پر بھی ایسے مطالبات سامنے آئے تھے جن میں ایسے جرائم میں ملوث افراد کو سر عام پھانسی دینے کی باتیں کی جا رہی تھیں۔
قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ ملک میں جرائم کے خلاف قوانین پہلے ہی موجود ہیں لیکن ان پر عملدرآمد اور پھر مقدمات میں طوالت صورتحال کو سنگین بنا دیتی ہے اور پھر جب زینب جیسا کوئی واقعہ سامنے آتا ہے تو لوگوں کی اس جانب توجہ زیادہ ہو جاتی ہے۔
انسانی حقوق کے سرگرم کارکن اور ماہر قانون دان کامران عارف نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس سے قبل بھی ایک مرتبہ سر عام پھانسی دینے کی بات چلی تھی جس پر سپریم کورٹ نے چاروں صوبوں سے رائے لی تھی اور اس میں خیبرپختونخواہ کی طرف سے اس اقدام کی یہ کہہ کر مخالفت کی گئی تھی کہ چونکہ یہاں انتقاماً قتل کی وارداتیں ہوتی ہیں تو سر عام پھانسی دینے سے صورتحال اور خراب ہو سکتی ہے۔
انھوں نے کہا کہ سزائے موت پر عملدرآمد سے زیادہ قانون کے موثر نفاذ اور بروقت مقدمات کی شنوائی سے جرائم کے خلاف زیادہ بہتر انداز میں مدافعت پیدا کی جا سکتی ہے۔
انھوں نے بتایا کہ پاکستان میں سر عام پھانسی بھی دی جا چکی ہے لیکن یہ اس وقت ہوا تھا جب آئین معطل تھا اور پاکستانی قانون کے مطابق سر عام پھانسی نہیں دی جا سکتی لہذا اس پر پارلیمان میں بحث ہونی چاہیے لیکن کامران عارف کے خیال میں سرعام پھانسی نہیں ہونی چاہیے۔