سینیٹ انتخابات: کیا اس بار بھی خیبر پختونخوا میں کوئی 'اپ سیٹ' ہو سکتا ہے؟
خیبرپختونخوا میں 2018 میں ہونے والے سینیٹ انتخابات کے حوالے سے منظرِ عام پر آنے والی ویڈیو اور بعض اُمیدواروں کے غیر متوقع طور پر منتخب ہونے کے بعد اس بار بھی سب نظریں یہاں ہونے والے انتخابات پر مرکوز ہیں۔
انتخابات خفیہ رائے شماری سے ہی کرانے کے فیصلے کے بعد صوبے کی 12 نشستوں پر ہونے والے انتخابات میں کامیابی کے لیے سیاسی جماعتیں ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہیں۔ ایسے میں تین آزاد اُمیدواروں کی حمایت حاصل کرنے کی کوششیں بھی جاری ہیں۔
حکمراں جماعت پاکستان تحریکِ انصاف پراُمید ہے کہ وہ 12 میں سے 11 نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گی۔ اس مقصد کے لیے حکمراں جماعت نے بلوچستان عوامی پارٹی کے ساتھ انتخابی اتحاد کر کے ایک نشست پر اُن کے اُمیدوار کو کامیاب کرانے کی یقین دہانی کرائی ہے۔
دوسری جانب حزبِ اختلاف میں شامل چار جماعتوں نے اصولی طور پر مشترکہ امیدواروں کو میدان میں اُتارنے کا فیصلہ کیا ہے۔
الیکشن کمیشن کا سینیٹ انتخابات ماضی کی طرز پر کرانے کا فیصلہ
سپریم کورٹ آف پاکستان کی طرف سے صدارتی ریفرنس پر رائے کے بعد الیکشن کمیشن نے سینیٹ انتخابات ماضی کی طرح کرانے کا فیصلہ کیا ہے۔ الیکشن کمیشن کے اس فیصلے کی وجہ وقت کی کمی بتائی جاتی ہے۔
سینیٹ انتخابات کے لیے اراکینِ صوبائی و قومی اسمبلی تین مارچ کو پولنگ میں حصہ لیں گے۔
سینیٹ انتخابات سے متعلق اعلیٰ عدالت نے پیر کو صدارتی ریفرنس پر اپنی رائے میں کہا تھا کہ سینیٹ انتخآبات آئین و قانون کے مطابق ہوں گے اور بیلٹ پیپر کا خفیہ رکھنا حتمی نہیں ہے۔
الیکشن کمیشن نے اعلیٰ عدالت کے فیصلے کے مطابق سینیٹ انتخابات میں ٹیکنالوجی کے استعمال کے لیے تین رکنی کمیٹی تشکیل دے دی ہے جو آئندہ کے لیے لائحہ عمل بنائے گی۔
پاکستان میں سینیٹ الیکشن ہوتا کیسے ہے؟
پاکستان میں ان دنوں سینیٹ انتخابات کا شور ہے اور سیاسی جماعتیں پارلیمنٹ کے ایوانِ بالا سینیٹ آف پاکستان میں برتری کے لیے سرتوڑ کوششیں کر رہی ہیں۔ رُکن اسمبلی تو عوام کے براہ راست ووٹوں سے منتخب ہوتے ہیں تاہم صوبوں سے سینیٹ کے اُمیدواروں کا انتخاب وہاں کی صوبائی اسمبلی کے اراکین جب کہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد سے سینیٹر کا انتخاب اراکین قومی اسمبلی کرتے ہیں۔
سینیٹ کی 48 نشستوں پر اس مرتبہ انتخابات ہو رہے ہیں۔ پنجاب سے 11 سینیٹرز بلامقابلہ منتخب ہو چکے ہیں۔ سندھ کے 11 جب کہ بلوچستان اور خیبر پختونخوا سے 12، 12 سینٹرز کے انتخاب کے لیے بدھ کو پولنگ ہو گی۔
سینیٹ انتخابات ہر تین سال بعد ہوتے ہیں جب نصف سینیٹرز کے ریٹائر ہونے کے بعد نئے سینیٹرز ایوان میں آتے ہیں۔
پنجاب سے 11 سینٹرز کے بلامقابلہ منتخب ہونے کے بعد اب خیبر پختونخوا، بلوچستان، سندھ اور اسلام آباد کی مجموعی طور پر 37 نشستوں پر مقابلہ ہونا ہے۔
سندھ اسمبلی میں تحریک انصاف کے اراکین گتھم گتھا، وجہ تنازع سینیٹ الیکشن
سندھ اسمبلی میں پاکستان تحریک انصاف کے اراکین آپس میں لڑ پڑے۔ ایوان میں ایک دوسرے کو گھونسے اور مکے مارے گئے اور دھکے دیے گئے۔
جھگڑا اس وقت شروع ہوا جب ایوان میں تحریک انصاف کے وہ اراکین بھی آئے جنہوں نے پارٹی کی جانب سے اعلان کردہ امیدواروں کو سینیٹ کے انتخابات میں ووٹ نہ دینے کا اعلان کیا تھا۔
لڑائی کی سامنے آنے والی ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ اس دوران پیپلز پارٹی کے اراکین بھی بیچ بچاؤ کرتے رہے اور ان اراکین کو بچانے کی کوشش میں لگے رہے جنہوں نے اپنی ہی جماعت کے فیصلے سے بغاوت کا اعلان کیا تھا۔
تحریک انصاف کے جیکب آباد سے رکن صوبائی اسمبلی اسلم ابڑو، کراچی ضلع شرقی سے رکن کریم بخش گبول اور گھوٹکی سے رکن اسمبلی شہریار شر نے پیر کو اپنے الگ الگ بیان میں کہا تھا کہ وہ وفاق میں برسر اقتدار اپنی جماعت تحریک انصاف کی پالیسیوں سے بقول ان کے نالاں ہیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف کی حکومت نے صوبہ سندھ میں تبدیلی کے لیے اب تک کچھ نہ کیا۔ اس لیے وہ ووٹ اپنی مرضی سے دیں گے جس کی آئین اور قانون اُنہیں اجازت دیتا ہے۔