ایوان بالا کے انتخاب کا مرحلہ تو تمام تر خدشات اور شکوک و شبہات کے باوجود طے پایا گیا لیکن تقریباً تمام بڑی جماعتوں کی طرف سے اس میں ووٹ کے حصول کے لیے امیدواروں کی طرف سے رقوم استعمال کرنے کے دعوے سامنے آ رہے ہیں۔
حکمران جماعت مسلم لیگ ن کے سابق صدر اور پاکستان کے سابق وزیراعظم نواز شریف کا کہنا ہے کہ سینیٹ انتخابات میں ماضی میں بھی اس طرح ہوتا رہا ہے لیکن ان کے بقول اس مرتبہ بہت واضح اور کھلے عام ہوا جس کا حساب لیا جانا ضروری ہے۔
پیر کو اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ "جہاں جہاں پیسہ کے ذریعے لوگوں کے ووٹ خریدے ہیں اس کا حساب کتاب تو ضرور ہوناچاہیے۔۔۔ اس کی تہہ تک پہنچنا ضروری ہے اس طرح کا کھیل اس ملک کے اندر نہیں ہونا چاہیے اور یہ نظام بھی بدلنا چاہیے اور یہ سارا کھیل جو ہے پیسے کا اس کو دفن کرنا چاہیے۔"
خیبرپختونخواہ سے پیپلزپارٹی کے دو سینیٹرز منتخب ہوئے جب کہ وہاں اس جماعت کے صرف سات ارکان ہیں۔ ادھر مسلم لیگ نون کا سوال ہے کہ پنجاب اسمبلی میں کم نشستوں کے باوجود تحریک انصاف وہاں سے سینیٹ کی ایک نشست کس طرح حاصل کر پائی؟
تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان خود اعتراف کرتے ہیں کہ ان کی جماعت کے قانون سازوں نے اپنے ووٹ بیچے جس کی تحقیقات کی جا رہی ہیں۔
کراچی میں صحافیوں سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ "یہ جمہوریت کی نفی ہوئی ہے یہ الیکشن نہیں ہوئے یہ پیسہ چلا ہے اور مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے خیبر پختونخواہ کے لوگوں (ارکان اسمبلی) پر پیسہ چلا اور اس سے زیادہ افسوس سے کہتا ہوں کہ کئی لوگوں نے اپنے آپ کو بیچا۔ (ہم) اس کی پوری تحقیقات کر رہے ہیں کہ کون کون لوگ ہماری پارٹی سے بکے۔"
انھوں نے بتایا کہ ارکان اسمبلی کا ایک ووٹ حاصل کرنے کے لیے چار کروڑ روپے تک کی پیشکش کی گئی۔
چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری یہ کہہ چکے ہیں کہ جہاں مسلم لیگ ن ہو گی ان کے بقول وہاں دھاندلی ضروری ہوگی۔ اس پر نواز شریف کا کہنا تھا کہ ایک ایسی جماعت جس کا ایک صوبے میں کوئی رکن اسمبلی نہیں اگر وہ وہاں سے سینیٹ کے لیے امیدوار کھڑا کرتی ہے تو اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ دھاندلی ہوئی یا نہیں۔
پیپلزپارٹی کی بلوچستان اسمبلی میں کوئی نمائندگی نہیں ہے۔
انتخابات کے بعد ایسے الزامات پر غیر جانبدار حلقوں کا کہنا ہے کہ یہ کام سیاسی جماعتوں کا ہے کہ وہ شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے بروقت موثر قانون سازی کریں۔
الیکشن کمشین کے سابق سیکرٹری اور انتخابی عمل کی شفافیت کے لیے سرگرم ایک غیر سرکاری تنظیم 'نیشنل ڈیموکریٹک فاؤنڈیشن' کے چیئرمین کنور محمد دلشاد نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ بدقسمتی سے سیاسی جماعتوں نے انتخابی اصلاحات کے وقت اس جانب توجہ دلائے جانے کے باوجود ضروری اقدام نہیں کیے۔
"ظاہر ہے انھوں نے روپیہ خرچ کر کے اقتدار کے ایوان میں آنا ہے تو اس کی روک تھام کے لیے ایک ہی طریقہ ہے کہ جیسے وزیراعظم یا وزرائے اعلیٰ کا انتخاب خفیہ رائے شماری سے نہیں ہوتا اسی طرح اسے بھی اوپن بیلٹنگ سے کریں جس کے لیے آئین کی شق 69، 226 اور 224 میں ترمیم کرنی پڑے گی۔
سیاسی اور جمہوری امور کے سینیئر تجزیہ کار احمد بلال محبوب کا بھی کہنا ہے کہ انتخابات میں دھاندلی اور دیگر بے ضابطگیوں پر ایک دوسرے پر الزام لگانے کی بجائے سیاستدانوں کو ہی اس مرض کا علاج تلاش کرنا ہوگا۔
دریں اثناء سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کو چار نو منتخب سینیٹرز کی کامیابی کا سرکاری نوٹیفیکیشن جاری کرنے سے روک دیا ہے جن کے بارے میں شبہ ہے کہ وہ دوہری شہریت کے حامل ہیں۔
پیر کو سرکاری عہدیداروں، ججز اور قانون سازوں کی دہری شہریت سے متعلق لیے گئے ایک از خود نوٹس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس ثاقب نثار کے استفسار پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ چار نومنتخب سینیٹرز دہری شہریت کے حامل ہیں۔
ان میں مسلم لیگ ن کی حمایت یافتہ نزہت صادق، سعدیہ عباسی، ہارون اختر اور تحریک انصاف کے چودھری محمد سرور شامل ہیں۔