پشاور —
خیبر پختونخواہ کی حکومت نے ایک بار پھر وفاقی حکومت سے پشاور جیل میں قید ڈاکٹر شکیل آفریدی کو اپنی تحویل میں لیتے ہوئے کسی دوسری جیل منتقل کرنے کی درخواست کی ہے۔
ڈاکٹر آفریدی کو گزشتہ سال قبائلی علاقوں میں رائج قانون ’ایف سی آر‘ کے تحت خیبر ایجنسی کی انتظامیہ نے شدت پسندوں سے تعلق کے الزام میں 33 سال قید بامشقت کی سزا سنائی تھی۔
صوبائی وزیراعلیٰ کے مشیر برائے جیل خانہ جات ملک قاسم نے اتوار کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ ڈاکٹر آفریدی کی سکیورٹی اور پشاور جیل میں رکھنے پر کافی اخراجات آرہے ہیں اس لیے وفاق سے اسے منتقل کرنے کی درخواست کی گئی۔
’’ ہم نے تو کہا ہے کہ یہ وفاق کا قیدی ہے وہ اسے لے لے اور اس پر ہمارا جو خرچہ آتا ہے وہ وفاق دے۔‘‘
گزشتہ سال صوبے کی سابقہ حکومت نے بھی وفاق سے اسی قسم کا مطالبہ کیا تھا لیکن مرکزی حکومت نے اس کا کوئی خاطر خواہ جواب نہیں دیا۔
ڈاکٹر آفریدی کے وکلاء میں شامل میں ایک وکیل سمیع اللہ آفریدی نے صوبائی حکومت کے موقف کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ یہ ان کے موکل کی سلامتی کے لیے بھی ضروری ہے۔
’’میرا تو پہلے بھی یہی خیال تھا اور اب بھی یہی ہے کہ یہاں صوبے کے حالات پاکستان کے دوسرے علاقوں سے زیادہ بدترین ہیں یہاں طالبان زیادہ ہیں خصوصاً جیل میں تو یہاں ڈاکٹر آفریدی کی جان کو خطرہ ہے تو انھیں اسلام آباد یا کسی دوسری جگہ منتقل کیا جائے۔‘‘
پشاور سے ملحقہ خیبر ایجنسی سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر شکیل آفریدی کو سکیورٹی ایجنسیوں نے مغربی ذرائع ابلاغ میں آنے والی ان اطلاعات کے بعد کہ اس نے القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کی نشاندہی کے لیے امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کی مدد کی تھی، 23 مئی 2010ء کو گرفتار کیا تھا۔
شکیل آفریدی نے اپنی سزا کے خلاف کشمنر پشاور کی عدالت میں اپیل دائر کر رکھی ہے۔
ڈاکٹر آفریدی کو گزشتہ سال قبائلی علاقوں میں رائج قانون ’ایف سی آر‘ کے تحت خیبر ایجنسی کی انتظامیہ نے شدت پسندوں سے تعلق کے الزام میں 33 سال قید بامشقت کی سزا سنائی تھی۔
صوبائی وزیراعلیٰ کے مشیر برائے جیل خانہ جات ملک قاسم نے اتوار کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ ڈاکٹر آفریدی کی سکیورٹی اور پشاور جیل میں رکھنے پر کافی اخراجات آرہے ہیں اس لیے وفاق سے اسے منتقل کرنے کی درخواست کی گئی۔
’’ ہم نے تو کہا ہے کہ یہ وفاق کا قیدی ہے وہ اسے لے لے اور اس پر ہمارا جو خرچہ آتا ہے وہ وفاق دے۔‘‘
گزشتہ سال صوبے کی سابقہ حکومت نے بھی وفاق سے اسی قسم کا مطالبہ کیا تھا لیکن مرکزی حکومت نے اس کا کوئی خاطر خواہ جواب نہیں دیا۔
ڈاکٹر آفریدی کے وکلاء میں شامل میں ایک وکیل سمیع اللہ آفریدی نے صوبائی حکومت کے موقف کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ یہ ان کے موکل کی سلامتی کے لیے بھی ضروری ہے۔
’’میرا تو پہلے بھی یہی خیال تھا اور اب بھی یہی ہے کہ یہاں صوبے کے حالات پاکستان کے دوسرے علاقوں سے زیادہ بدترین ہیں یہاں طالبان زیادہ ہیں خصوصاً جیل میں تو یہاں ڈاکٹر آفریدی کی جان کو خطرہ ہے تو انھیں اسلام آباد یا کسی دوسری جگہ منتقل کیا جائے۔‘‘
پشاور سے ملحقہ خیبر ایجنسی سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر شکیل آفریدی کو سکیورٹی ایجنسیوں نے مغربی ذرائع ابلاغ میں آنے والی ان اطلاعات کے بعد کہ اس نے القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کی نشاندہی کے لیے امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کی مدد کی تھی، 23 مئی 2010ء کو گرفتار کیا تھا۔
شکیل آفریدی نے اپنی سزا کے خلاف کشمنر پشاور کی عدالت میں اپیل دائر کر رکھی ہے۔