اسلام آباد —
پاکستان بھر میں پیر کو واقعہ کربلا کے چہلم کے سلسلے میں ماتمی جلوسوں کی حفاظت کے لیے سکیورٹی کے انتہائی سخت انتظامات کیے گئے جب کہ بعض علاقوں خاص طور پر راولپنڈی میں حالات کشیدہ ہیں۔
ملک بھر میں امن و امان کی صورتحال کو یقینی بنانے کے لیے دس ہزار فوجی اہلکار بھی پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی معاونت کے لیے تعینات کیے گئے ہیں۔
وفاقی دارالحکومت اسلام آباد سمیت بہت سے شہروں میں پیر کو ماتمی جلوس نکالے گئے جب کہ بعض شہروں میں منگل کو جلوس نکالے جانے ہیں۔
وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار نے ایک اعلٰی سطحی اجلاس میں تمام انٹیلی جنس ایجنسیوں کو ہدایت کی کہ وہ امن و امان کو یقینی بنانے کے لیے تمام صوبوں کے ساتھ بھرپور تعاون کریں۔
ایک سرکاری بیان میں وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ تشدد کا راستہ اختیار کرنے والوں سے سختی سے نمٹا جائے گا۔
چہلم کے ماتمی جلوسوں کے راستوں خاص طور پر حساس مقامات کی فضائی نگرانی بھی کی جاتی رہی۔
دارالحکومت اسلام آباد کے جڑواں شہر راولپنڈی میں فوج اور رینجرز کے اہلکار پیر کو گشت کرتے رہے۔ راولپنڈی میں ماتمی جلوس منگل کو نکالا جانا ہے لیکن فرقہ وارانہ کشیدگی کے باعث شہر میں سکیورٹی انتہائی سخت کر دی گئی ہے۔
راولپنڈی میں یوم عاشور کے موقع پر فرقہ وارانہ تصادم میں کم از کم گیارہ افراد ہلاک ہو گئے تھے جس کے بعد مشتعل مظاہرین نے کئی دوکانوں کو آگ لگا دی جس سے املاک کو شدید نقصان پہنچا۔
اس صورت حال کے بعد شہر میں کشیدگی اس حد تک بڑھ گئی تھی کہ کرفیو نافذ کر کے فوج کو تعینات کر دیا گیا تھا۔
راولپنڈی کے تاریخی تجارتی علاقے راجہ بازار اور فوارہ چوک کا علاقہ جس کے قریب یوم عاشور کے موقع پر فرقہ وارانہ تصادم ہوا تھا وہاں پیر کو دن بھر تناؤ برقرار رہا۔
اگرچہ کاروباری مراکز دن بھر کھلے رہے لیکن سہ پہر کے بعد اُنھیں بند کروانا شروع کر دیا گیا۔
راولپنڈی کے ڈپٹی کمشنر ساجد ظفر نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو میں کہا کہ کسی بھی فریق کو قانون کو ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
حالیہ ہفتوں میں کراچی اور لاہور میں تین شیعہ و سنی علما دین نامعلوم مسلح افراد کی فائرنگ سے مارے جا چکے ہیں اور بظاہر یہ واقعات راولپنڈی میں فرقہ وارانہ تصادم سے پیدا ہونے والی کشیدگی کا شاخسانہ معلوم ہوتے ہیں۔
وزیراعظم نواز شریف سمیت وفاقی و صوبائی حکومتیں علمائے دین سے یہ کہتی ہیں کہ وہ ملک میں فرقہ واریت کے خاتمے اور تمام مسالک کے درمیان ہم آہنگی کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔
ملک بھر میں امن و امان کی صورتحال کو یقینی بنانے کے لیے دس ہزار فوجی اہلکار بھی پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی معاونت کے لیے تعینات کیے گئے ہیں۔
وفاقی دارالحکومت اسلام آباد سمیت بہت سے شہروں میں پیر کو ماتمی جلوس نکالے گئے جب کہ بعض شہروں میں منگل کو جلوس نکالے جانے ہیں۔
وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار نے ایک اعلٰی سطحی اجلاس میں تمام انٹیلی جنس ایجنسیوں کو ہدایت کی کہ وہ امن و امان کو یقینی بنانے کے لیے تمام صوبوں کے ساتھ بھرپور تعاون کریں۔
ایک سرکاری بیان میں وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ تشدد کا راستہ اختیار کرنے والوں سے سختی سے نمٹا جائے گا۔
چہلم کے ماتمی جلوسوں کے راستوں خاص طور پر حساس مقامات کی فضائی نگرانی بھی کی جاتی رہی۔
دارالحکومت اسلام آباد کے جڑواں شہر راولپنڈی میں فوج اور رینجرز کے اہلکار پیر کو گشت کرتے رہے۔ راولپنڈی میں ماتمی جلوس منگل کو نکالا جانا ہے لیکن فرقہ وارانہ کشیدگی کے باعث شہر میں سکیورٹی انتہائی سخت کر دی گئی ہے۔
راولپنڈی میں یوم عاشور کے موقع پر فرقہ وارانہ تصادم میں کم از کم گیارہ افراد ہلاک ہو گئے تھے جس کے بعد مشتعل مظاہرین نے کئی دوکانوں کو آگ لگا دی جس سے املاک کو شدید نقصان پہنچا۔
اس صورت حال کے بعد شہر میں کشیدگی اس حد تک بڑھ گئی تھی کہ کرفیو نافذ کر کے فوج کو تعینات کر دیا گیا تھا۔
راولپنڈی کے تاریخی تجارتی علاقے راجہ بازار اور فوارہ چوک کا علاقہ جس کے قریب یوم عاشور کے موقع پر فرقہ وارانہ تصادم ہوا تھا وہاں پیر کو دن بھر تناؤ برقرار رہا۔
اگرچہ کاروباری مراکز دن بھر کھلے رہے لیکن سہ پہر کے بعد اُنھیں بند کروانا شروع کر دیا گیا۔
راولپنڈی کے ڈپٹی کمشنر ساجد ظفر نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو میں کہا کہ کسی بھی فریق کو قانون کو ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
حالیہ ہفتوں میں کراچی اور لاہور میں تین شیعہ و سنی علما دین نامعلوم مسلح افراد کی فائرنگ سے مارے جا چکے ہیں اور بظاہر یہ واقعات راولپنڈی میں فرقہ وارانہ تصادم سے پیدا ہونے والی کشیدگی کا شاخسانہ معلوم ہوتے ہیں۔
وزیراعظم نواز شریف سمیت وفاقی و صوبائی حکومتیں علمائے دین سے یہ کہتی ہیں کہ وہ ملک میں فرقہ واریت کے خاتمے اور تمام مسالک کے درمیان ہم آہنگی کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔