پاکستان میں محکمہ صحت کے حکام کے مطابق ملک میں نوجوانوں خاص طور پر خواتین میں تمباکو نوشی کے رجحان میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔
ماہرین کے مطابق اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں سگریٹ کی قیمت جنوبی ایشا سمیت دنیا کے دیگر ممالک کی نسبت بہت کم ہے۔ اس کے علاوہ سگریٹ نوشی کا رجحان روکنے کے لیے بڑے پیمانے پر آگاہی اور ٹھوس اقدامات نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان میں ہر روز چھ سے بارہ سال کی عمر کے 1200 بچے سگریٹ نوشی کی طرف راغب ہو رہے ہیں۔
ان اعداد و شمار کی تصدیق وفاقی وزیر مملکت برائے نیشنل ہلیتھ سروسز سائرہ افضل تارڑ نے بھی کی۔
صارفین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم نیٹ ورک فار کنزیومر پروٹیکشن میں ٹوبیکو کنٹرول کی پراجیکٹ کوآرڈینٹر ڈاکٹر نورین ارشد نے وی اے کو بتایا کہ پاکستان میں تمباکو نوشی کرنے والوں کی تعداد میں تیزی سے اضافے کو روکنے کے لیے معاشرے کے تمام ہی طبقوں کو مل کر کام کرنا ہو گا۔
اگرچہ حکومت نے سگریٹ نوشی روکنے کے لیے نئے قوانین و ضوابط متعارف کرائے ہیں جن میں حال ہی میں سگریٹ کی ڈبیہ کے 85 فیصد حصے پر تمباکو نوشی کے مضر اثرات کے بارے میں تصویری انتباہ چھاپنا لازمی قرار دیا گیا ہے، تاہم تمباکو نوشی روکنے کے لیے صوبائی اور ضلعی حکومتوں کی جانب سے مزید فعال کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔
ڈاکٹر نورین ارشد کا کہنا تھا کہ تمباکو نوشی کے رجحان میں محض حکومت کی کوششوں سے کمی نہیں آ سکتی۔ اس کے لیے ایک جامع حکمتِ عملی کی ضرورت ہے جس میں عوامی حلقے اور میڈیا بھی کردار ادا کریں۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق تمباکو نوشی دنیا بھر میں ایسی بیماریوں کا سب سے بڑا ذریعہ ہے جنہیں روکا جا سکتا ہے۔ تمباکو سے ہونے والی بیماریوں سے دنیا بھر میں ہر سال ساٹھ لاکھ افراد لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔ پاکستان میں بھی ایک لاکھ افراد تمباکو نوشی کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔
طبی ذرائع کے مطابق پھیپھڑوں کا سرطان اور منہ کا سرطان پاکستان میں تمباکو نوشی سے ہونے والی اموت کی سب سے بڑی وجہ ہیں۔ دنیا میں سب سے زیادہ افراد پاکستان میں منہ کے کینسر کا شکار ہوتے ہیں جس کی بنیادی وجہ چبا کر استعمال کی جانے والی تمباکو کی مصنوعات مثلاً پان، نسوار اور گٹکا ہیں۔
ترقی یافتہ ممالک میں سخت قوانین نافذ ہونے کے بعد اب سگریٹ بنانے والی کمپنیوں نے اپنی توجہ ترقی پذیر ممالک کی طرف مرکوز کر لی ہے جہاں سگریٹ نوشی کے خلاف قوانین نسبتاً کمزور اور ان کا نفاذ زیادہ موثر نہیں ہے۔
پاکستان میں اب لڑکیوں نے بھی بڑی تعداد میں سگریٹ نوشی شروع کر دی ہے۔ پہلے چار مردوں کے مقابلے میں ایک عورت سگریٹ پیتی تھی، مگر اب یہ شرح بڑھ کر دو کے مقابلے میں ایک ہو گئی ہے۔
اگرچہ پاکستان میں 2002 میں سگریٹ نوشی کی ممانعت اور سگریٹ نوشی نہ کرنے والے افراد کے تحفظ کے لیے ایک قانون منظور کیا گیا تھا، مگراس کے بارے میں عوام میں بہت کم آگہی ہے۔ حکومت نے اس کے نفاذ کے لیے حال ہی کوششیں کی ہیں۔ اس سلسلے میں پاکستان کے دس اضلاع میں اس قانون کے تحت پبلک مقامات پر تمباکو نوشی کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی گئی جس میں اسلام آباد سرِ فہرست ہے۔
گزشتہ دنوں قومی اسمبلی میں وقفہ سوالات کے دوران نیشنل ہیلتھ سروسز، ریگولیشنز اینڈ کوآرڈینیشن کی وفاقی وزیر سائرہ افضل تارڑ نے بتایا کہ سگریٹ نوشی کی ممانعت اور سگریٹ نوشی نہ کرنے والے افراد کی صحت کی تحفظ کے قانون کے تحت 2010 سے اب تک 967 کیس درج کیے جا چکے ہیں۔ ان میں سے 593 کیس اسلام آباد میں درج کیے گئے۔ تاہم ابھی ان کارروائیوں کا دائرہ پورے ملک میں بڑھایا جانا ہے۔