پاکستان کے قبائلی علاقے جنوبی وزیرستان سے تقریباً دو ماہ قبل اغوا ہونے والے سات سرکاری ملازمین بازیاب ہو گئے ہیں۔
سرکاری میڈیا اور مقامی ذرائع کے مطابق یہ افراد منگل کو علی الصبح انگور اڈہ کے علاقے سے بازیاب ہوئے تاہم ان کی بازیابی کس طرح سے عمل میں آئی اس بارے میں تفصیلات سامنے نہیں آسکی ہیں۔
جنوبی وزیرستان کے ایک مقامی قبائلی رہنما عمران وزیر نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ "ان افراد کو رات دو بجے انگور اڈہ سرحد پر پولیٹیکل ایجنٹ کے حوالے کیا گیا۔"
مارچ کے وسط میں نامعلوم مسلح افراد نے فاٹا ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے نو اہلکاروں کو اس وقت اغوا کر لیا تھا جب وہ ترقیاتی کاموں کا جائزہ لینے کے لیے تحصیل وانا کے علاقے طوئی خولہ میں تھے۔
مغویوں میں سے ایک شخص کو اغوا کے کچھ دیر بعد ہی رہا کر دیا گیا تھا جب کہ ایک اور مغوی گزشتہ ماہ اغوا کاروں کی تحویل سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا تھا۔
جنوبی وزیرستان کا علاقہ افغانستان کی سرحد سے ملحق ہے اور ماضی میں یہاں شدت پسندوں نے اپنی مضبوط پناہ گاہیں قائم کر رکھی تھیں۔
2009ء میں پاکستانی فوج نے یہاں بھرپور کارروائی کرتے ہوئے علاقے کو شدت پسندوں سے صاف کر دیا تھا جس کے بعد یہاں مواصلات اور بنیادی ڈھانچے کے متعدد منصوبے شروع کیے گئے۔
ماضی میں بھی جنوبی وزیرستان میں مختلف سرکاری منصوبوں پر کام کرنے والے مزدوروں اور سرکاری اہلکاروں کے اغوا کے واقعات رونما ہو چکے ہیں۔
جنوبی وزیرستان ایک اور قبائلی علاقے شمالی وزیرستان سے بھی ملحق ہے جہاں جون 2014ء میں شدت پسندوں کے خلاف پاکستانی فوج نے بھرپور کارروائی شروع کی تھی اور اس میں اب تک 3500 ملکی و غیر ملکی عسکریت پسندوں کو ہلاک کرنے کے علاوہ ان کے سیکڑوں ٹھکانوں کو تباہ کرنے کا بتایا جا چکا ہے۔
طالبان اور دیگر شدت پسند گروپوں کے لوگ عموماً اپنے ساتھیوں کو چھڑوانے کے لیے سرکاری اہلکاروں اور اپنے مالی وسائل کے حصول کے لیے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے شہریوں کو اغوا کرتے رہے ہیں۔