اسلام آباد —
پاکستان کے وزیرِ اعظم نواز شریف نے ملک میں قیامِ امن کے لیے مقامی طالبان کے ساتھ مذاکرات کی متفقہ پالیسی پر عمل پیرا رہنے کے عزم کو دہرایا ہے۔
اسلام آباد میں جمعرات کو کاروباری شخصیات سے خطاب کرتے ہوئے اُنھوں نے کہا کہ گزشتہ کئی برسوں سے جاری دہشت گردی کے باعث جہاں سلامتی سے متعلق اداروں، انتظامیہ اور شہریوں کو بے پناہ جانی و مالی نقصانات کا سامنا کرنا پڑا، وہیں قومی معیشت کو بھی بہت نقصان پہنچا۔
وزیرِ اعظم نے کہا کہ دہشت گردی کے ان بد ترین اثرات کے سدِ باب کے لیے مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے اقتدار سنبھالنے کے فوری بعد پارلیمان میں نمائندگی رکھنے والی تمام سیاسی جماعتوں کا اجلاس منعقد کیا، جس میں اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کا سلسلہ شروع کرنے پر اتفاق ہوا۔
نواز شریف نے کہا کہ حالیہ رکاوٹ کے باوجود حکومت دہشت گردی کے مسئلے کا مذاکراتی حل تلاش کرنا چاہتی ہے۔
’’امن اگر مذاکرات سے قائم ہو سکتا ہے تو اس سے بہتر آپشن اور کوئی نہیں۔ اس (عمل) کو ہم اب بھی آگے بڑھانے کی بھرپور کوشش کریں گے اور دنیا نے بات چیت کے ذریعے سے ان مسائل کو حل کیا ہے، ہم بھی کرنا چاہتے ہیں۔‘‘
مسلم لیگ (ن) کے رہنما حالیہ ہفتوں میں یہ بات زور دے کر کہتے آئے ہیں کہ پاک افغان سرحد سے ملحقہ قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں یکم نومبر کو امریکی ڈرون حملے میں تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کے باعث مذاکراتی عمل تعطل کا شکار ہوا، کیوں کہ اگلے ہی روز حکومت کے نمائندہ وفد نے طالبان کے ساتھ پہلا باضابطہ رابطہ کرنا تھا۔
پاکستان کی ایک سیاسی و مذہبی جماعت جمیعت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقوں میں قیام امن کی کوششوں کے سلسلے میں حکومت کو ہدف تنقید بناتے ہوئے کہا ہے کہ مذاکرات سے متعلق تاحال کوئی واضح حکمتِ عملی مرتب نہیں کی گئی ہے۔
جمیعت علمائے اسلام (ف) کے زیرِ اہتمام رواں سال کے اوائل میں ہوئی کل جماعتی کانفرنس میں بھی طالبان سے بات چیت کے لیے امن جرگہ کی تشکیل پر اتفاق ہوا تھا، اور مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا ہے کہ اس جرگے نے امن مذاکرات کے لیے قابل عمل شفارشات مرتب کی ہیں۔
’’جرگہ حکومت سے مطالبہ کرتا ہے کہ قیام امن کے لیے قبائلی جرگہ کی طے شدہ حکمت عملی کی روشنی میں نئے اقدامات کا تعین کرے۔
وہی اصل حکمت عملی ہے، اس کی بنیاد پر بات چیت کا آغاز کیا جائے، اس کے لیے ماحول بنایا جائے۔‘‘
مولانا فضل الرحمٰن کا یہ بھی کہنا تھا کہ ڈرون حملے قبائلی علاقوں میں قیام امن کی کوششوں کو ’’سبوتاژ‘‘ کرنے کا سبب ہیں۔
مسلم لیگ (ن) کی حکومت کا کہنا ہے کہ ڈرون حملے رکوانے کے لیے بھرپور کوششیں کی جا رہی ہیں، جن میں اعلیٰ ترین سفارتی سطح پر پاکستان کے تحفظات کا اظہار سرِ فہرست ہے۔
اسلام آباد میں جمعرات کو کاروباری شخصیات سے خطاب کرتے ہوئے اُنھوں نے کہا کہ گزشتہ کئی برسوں سے جاری دہشت گردی کے باعث جہاں سلامتی سے متعلق اداروں، انتظامیہ اور شہریوں کو بے پناہ جانی و مالی نقصانات کا سامنا کرنا پڑا، وہیں قومی معیشت کو بھی بہت نقصان پہنچا۔
وزیرِ اعظم نے کہا کہ دہشت گردی کے ان بد ترین اثرات کے سدِ باب کے لیے مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے اقتدار سنبھالنے کے فوری بعد پارلیمان میں نمائندگی رکھنے والی تمام سیاسی جماعتوں کا اجلاس منعقد کیا، جس میں اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کا سلسلہ شروع کرنے پر اتفاق ہوا۔
نواز شریف نے کہا کہ حالیہ رکاوٹ کے باوجود حکومت دہشت گردی کے مسئلے کا مذاکراتی حل تلاش کرنا چاہتی ہے۔
’’امن اگر مذاکرات سے قائم ہو سکتا ہے تو اس سے بہتر آپشن اور کوئی نہیں۔ اس (عمل) کو ہم اب بھی آگے بڑھانے کی بھرپور کوشش کریں گے اور دنیا نے بات چیت کے ذریعے سے ان مسائل کو حل کیا ہے، ہم بھی کرنا چاہتے ہیں۔‘‘
مسلم لیگ (ن) کے رہنما حالیہ ہفتوں میں یہ بات زور دے کر کہتے آئے ہیں کہ پاک افغان سرحد سے ملحقہ قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں یکم نومبر کو امریکی ڈرون حملے میں تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کے باعث مذاکراتی عمل تعطل کا شکار ہوا، کیوں کہ اگلے ہی روز حکومت کے نمائندہ وفد نے طالبان کے ساتھ پہلا باضابطہ رابطہ کرنا تھا۔
پاکستان کی ایک سیاسی و مذہبی جماعت جمیعت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقوں میں قیام امن کی کوششوں کے سلسلے میں حکومت کو ہدف تنقید بناتے ہوئے کہا ہے کہ مذاکرات سے متعلق تاحال کوئی واضح حکمتِ عملی مرتب نہیں کی گئی ہے۔
جمیعت علمائے اسلام (ف) کے زیرِ اہتمام رواں سال کے اوائل میں ہوئی کل جماعتی کانفرنس میں بھی طالبان سے بات چیت کے لیے امن جرگہ کی تشکیل پر اتفاق ہوا تھا، اور مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا ہے کہ اس جرگے نے امن مذاکرات کے لیے قابل عمل شفارشات مرتب کی ہیں۔
’’جرگہ حکومت سے مطالبہ کرتا ہے کہ قیام امن کے لیے قبائلی جرگہ کی طے شدہ حکمت عملی کی روشنی میں نئے اقدامات کا تعین کرے۔
وہی اصل حکمت عملی ہے، اس کی بنیاد پر بات چیت کا آغاز کیا جائے، اس کے لیے ماحول بنایا جائے۔‘‘
مولانا فضل الرحمٰن کا یہ بھی کہنا تھا کہ ڈرون حملے قبائلی علاقوں میں قیام امن کی کوششوں کو ’’سبوتاژ‘‘ کرنے کا سبب ہیں۔
مسلم لیگ (ن) کی حکومت کا کہنا ہے کہ ڈرون حملے رکوانے کے لیے بھرپور کوششیں کی جا رہی ہیں، جن میں اعلیٰ ترین سفارتی سطح پر پاکستان کے تحفظات کا اظہار سرِ فہرست ہے۔