پاکستان نے متنازع کشمیر کو تقسیم کرنے والی لائن آف کنٹرول پر بھارتی فورسز کی طرف سے فائر بندی کے سمجھوتے کی مبینہ خلاف ورزی پر بھارت سے احتجاج کیا ہے۔
پاکستان کے دفترِ خارجہ کی طرف سے منگل کو جاری ایک بیان کے مطابق ڈائریکٹر جنرل برائے جنوبی ایشیا محمد فیصل نے اسلام آباد میں تعینات بھارت کے ڈپٹی ہائی کمشنر کو دفترِ خارجہ طلب کر کے پاکستان کا احتجاج ریکارڈ کرایا۔
دفترِ خارجہ نے الزام عائد کیا ہے کہ لائن آف کنٹرول کے شاہ کوٹ سیکٹر میں اٹھمقام پر پیر کو بھارتی فورسز کی فائرنگ سے آسیہ بی بی نامی ایک خاتون ہلاک جب کہ دو خواتین اور تین بچوں سمیت سات عام شہری زخمی ہوئے تھے۔
دفترِ خارجہ نے دعویٰ کیا ہے کہ بھارتی فورسز لائن آف کنٹرول اور ورکنگ باؤنڈری پر مسلسل عام شہریوں کو نشانہ بنا رہی ہیں اور 2018ء میں بھارتی فورسز نے مبینہ طور 2350 بار فائر بندی معاہدے کے خلاف ورزی کی۔
بیان کے مطابق بھارتی فوج کی ان کارروائیوں کی وجہ سے 2018ء کے دوران میں پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں 36 عام شہری ہلاک جب کہ 142 زخمی ہوئے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ 2003ء میں دونوں ملکوں کے درمیان طے پانے والے فائر بندی معاہدے کی بھارت کی جانب سے مبینہ خلاف ورزیاں خطے کے امن و سلامتی کے لیے خطرہ ہیں۔
اسلام آباد نے بیان میں ایک بار پھر نئی دہلی پر اس معاہدے کی پاس داری کرنے پر زور دیا ہے۔
پاکستان کے دفترِ خارجہ کی طرف سے بھارتی سفارت کار کی طلبی پر تاحال نئی دہلی کی جانب سے کوئی ردِ عمل سامنے نہیں آیا ہے۔
لیکن بھارت نے گزشتہ روز دعویٰ کیا تھا کہ اس کی فوج نے اتوار اور پیر کی درمیانی شب لائن آف کنٹرول پر واقع ایک چوکی پر پاکستان کی بارڈر ایکشن ٹیم (باٹ) کے حملے کو ناکام بناتے ہوئے دو در اندازوں کو ہلاک کیا۔ پاکستانی فوج نے بھارتی دعویٰ کی تردید کی ہے۔
جوہری تنصیبات کی فہرستوں کا تبادلہ
دریں اثنا پاکستان اور بھارت نے منگل کو نئے سال کے آغاز پر اپنی اپنی جوہری تنصیبات کی فہرستوں کا تبادلہ کیا ہے۔
اسلا آباد اور نئی دہلی کے درمیان 1988ء میں طے پانے والے جوہری تنصیبات پر حملے کی ممانعت سے متعلق معاہدے کے تحت بھارت اور پاکستان ہر سال یکم جنوری کو اپنی اپنی جوہری تنصیبات کی فہرستوں کے تبادلے کی پابند ہیں۔
پاکستان کے دفتر خارجہ کے ترجمان کی طرف سے جاری ایک بیان کے مطابق اسلام آباد اور نئی دہلی نے معمول کے مطابق منگل کو ان فہرستوں کا تبادلہ کیا۔
اگرچہ دنوں ملکوں کے درمیان جوہری تنصیبات پر حملہ نہ کرنے کا معاہدہ 31 دسمبر 1988ء میں طے پایا تھا، لیکن پہلی بار پاکستان اور بھارت کے درمیان جوہری تنصیبات کی فہرستوں کا تبادلہ یکم جنوری 1992ء کو ہوا تھا۔
ان فہرستوں میں صرف سول جوہری تنصیبات کی تفصیل ہوتی ہے جن میں جوہری بجلی گھر وغیرہ شامل ہیں۔ دونوں ممالک عسکری نوعیت کی جوہری تنصیبات سے متعلق تفصیلات کا تبادلہ نہیں کرتے۔
قیدیوں کی فہرستوں کو تبادلہ
یکم جنوری کو ہی پاکستان اور بھارت نے ایک دوسرے کے ہاں قید پاکستانی اور بھارتی شہریوں کی فہرستوں کا بھی تبادلہ کیا ہے۔
پاکستان کے دفتر خارجہ کے طرف سے منگل کو جاری بیان کے مطابق پاکستان کی جیلوں میں 483 ماہی گیروں سمیت 537 بھارتی شہری قید ہیں۔
دوسری طرف بھارت نے بھی منگل کو اپنے ہاں قید پاکستانی قیدیوں کی فہرست نئی دہلی میں پاکستانی سفارت خانے کے حوالے کی۔
فہرست کے مطابق بھارت کی مختلف جیلوں میں 347 پاکستانی شہری قید ہیں جن میں 249 عام شہری اور 98 ماہی گیر ہیں۔
پاکستانی دفترِ خارجہ کا کہنا ہے کہ پاکستان اور بھارت 21 مئی 2008ء میں ہونے والے معاہدے کے تحت ہر سال یکم جنوری اور یکم جولائی کو ایک دوسرے کے ساتھ قیدیوں کی تفصیلات کا تبادلہ کرتے ہیں۔