پاکستان نے کہا ہے کہ وہ افغانستان میں امن و اقتصادی ترقی کے لیے چین کے کردار کی مکمل حمایت کرتا ہے۔
یہ بات وزیراعظم کے مشیر برائے امور خارجہ و قومی سلامتی سرتاج عزیز نے بیجنگ میں ہونے والی ہارٹ آف ایشیا استنبول پراسیس کی چوتھی وزارتی کانفرنس سے خطاب میں کہی۔
پاکستانی دفتر خارجہ کی طرف سے جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق سرتاج عزیز نے کہا کہ پاکستان اپنے مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے اعتماد سازی کے چھ اقدامات میں شریک ہے جن کا مقصد تعمیری علاقائی تعاون کے ذریعے خطے میں استحکام اور خوشحالی کو فروغ دینا ہے۔
جمعہ کو بیجنگ میں شروع ہونے والی اس کانفرنس کے افتتاحی اجلاس میں چین کے وزیراعظم لی کیچیانگ اور افغانستان کے صدر اشرف غنی نے خصوصی طور پر شرکت کی تھی۔
چینی وزیراعظم نے اس موقع پر افغانستان میں امن و استحکام کے لیے اپنی حمایت کا اعادہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ افغانستان کے پڑوسی ملکوں کو چاہیے کہ وہ اس کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہ کریں اور جنگ سے تباہ حال ملک کی تعمیر نو میں تعاون کریں۔
ستمبر میں منصب صدارت سنبھالنے کے بعد افغانستان کے صدر اشرف غنی اپنے پہلے سرکاری دورے پر چین میں ہیں جہاں چین کی طرف سے ان کے ملک کے لیے تیس کروڑ ڈالر کی امداد کا اعلان بھی کیا گیا ہے۔
پاکستانی مشیر خارجہ نے کانفرنس سے خطاب میں چین کے اس کردار کو سراہتے ہوئے افغانستان کی زیرقیادت ملک میں امن عمل کی مکمل حمایت کے پاکستانی عزم کو دہرایا۔
امریکہ نے بھی افغانستان سے متعلق چین کے بڑھتے ہوئے کردار کا خیر مقدم کیا ہے۔
امریکی محکمہ خارجہ کے ایک اعلیٰ عہدیدار کے مطابق افغانستان کی تعمیر نو کے لیے بیجنگ میں ہونے والی کانفرنس حوصلہ افزا قدم اور خطے کی بہتری کے لیے چین کے عزم کا اظہار ہے۔
ہارٹ آف ایشیا-استنبول پراسیس کا قیام 2011ء میں ہوا تھا اور اس میں 14 رکن ممالک کے علاوہ اسے 16 ملکوں اور 12 علاقائی و بین الاقوامی تنظیموں کی حمایت حاصل ہے۔ یہ علاقائی تعاون کے ذریعے افغانستان میں استحکام کی بین الاقوامی کاوشوں کا حصہ ہے۔
یہ کانفرنس ایک ایسے موقع پر منعقد ہوئی ہے جب آئندہ ماہ کے اواخر تک افغانستان سے تمام غیر ملکی افواج اپنے وطن واپس چلی جائیں گی اور اسی بنا پر اس ملک میں خصوصاً سلامتی کی صورتحال سے متعلق تحفظات کا اظہار کیا جاتا رہا ہے۔
غیرملکی افواج کے انخلا کے باوجود بھی ایک دوطرفہ سکیورٹی معاہدے کے تحت تقریباً نو ہزار امریکی فوجی یہاں رہ کر مقامی سکیورٹی فورسز کو تربیت اور انسداد دہشت گردی میں معاونت فراہم کرتے رہیں گے۔