ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کرونا کے سبب دو ماہ کی بندش اور بدلتے ہوئے حالات نے لوگوں کی نفسیات پر گہرے اثرات چھوڑیں گے۔ اور اس وقت بھی پاکستان اور دنیا کے بیشتر حصوں میں لوگ کرونا کی حقیقت کے بارے میں بٹے ہوئے نظر آتے ہیں۔
جب کہ پاکستان میں سپریم کورٹ کے اس حکم کا تاجروں نے خیر مقدم کیا ہے کہ عید سے پہلے کے اس ہفتے میں دکانوں اور بازاروں کو ہفتے اور اتوار کے دن بھی کھلنے دیا جائے اور پورے ملک میں شاپنگ مالز بھی صبح دس بجے سے ایک بجے رات تک کھلے رکھنے کی اجازت ہو گی۔
سپریم کورٹ کے حکم میں کہا گیا ہے کہ تاجروں کی دوکانیں سیل نہ کی جائیں اور جو کی گئیں ہیں انہیں کھول دیا جائے۔
ماہرین یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ کاروبار کھلنے کے بعد لوگوں کو کس طرح ماسک اور دستانے پہننے اور سماجی فاصلہ رکھنے پر آمادہ کیا جا سکتا ہے۔
جہاں تک عید سے قبل شاپنگ کا تعلق ہے۔ دکان داروں کا موقف ہے کہ انہیں بھی مالز کی طرح رات دیر تک دوکانیں کھولنے کی اجازت ہونی چاہئیے۔ تاکہ خریداری کے لئے آنے والے تقسیم ہو سکیں۔
ان کا کہنا ہے کہ اس وقت پانچ بجے دوکانیں بند کرنے کا حکم ہے جس کے سبب زیادہ سے زیادہ لوگ مقررہ وقت کے اندر اپنی شاپنگ کے لئے آتے ہیں اور اس طرح وہ احتیاطی تدابیر نظر انداز کر دیتے ہیں جو ایک خطرناک بات ہے۔
اجمل بلوچ انجمن تاجران پاکستان کے سربراہ ہیں۔ انہوں نے سپریم کورٹ کے فیصلے کو سراہتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ نے کراچی اور دوسرے بڑے شہروں کے حالات کے پیش نظر یہ از خود نوٹس لینے کی کارروائی کی ہے۔
’’دکاندار پولیس کے ڈنڈے کے زور پر دکانیں کھولتے اور بند کرتے تھے۔ صوبوں میں کچھ صورت حال تھی، وفاق میں کچھ اور۔ ملک میں تاجروں پر سیاست ہو رہی تھی، اگر مالز کے ساتھ بازاروں کو بھی رات دیر تک کھلنے کی اجازت مل جائے تو خریداروں کا ہجوم کم ہو سکتا‘‘
تاہم انہوں نے کہا جو خریدار آتے ہیں ان میں سے بہت کم ماسک اور دستانے پہنتے ہیں اور سماجی فاصلے کا بھی خیال نہیں کرتے۔ اور ان سے اس بارے میں کہا جائے تو ان میں سے بیشتر کا جواب ہوتا ہے کہ کرونا کچھ نہیں ہے اور اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔
کراچی یونیورسٹی میں شعبہ نفسیات کی ڈاکٹر انیلا ملک کا کہنا ہے کہ جن لوگوں کو اس کا کوئی ذاتی تجربہ نہیں ہے، ان کا خیال یہ ہی ہے کہ کرونا کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ انسانی نفسیات ہے کہ جو چیز اسے نظر نہ آئے اور اس چیز کے لئے لگائی گئی پابندیوں کو نرم کر دیا جائے تو لوگ اسے نظر انداز کر دیتے ہیں۔
ڈاکٹر انیلا نے کہا کہ پاکستان ہی نہیں بعض دوسرے علاقوں میں بھی کرونا وائرس کے بارے میں لوگ سوچ کے اعتبار سے منقسم ہیں۔ ایک وہ جو سمجھتے ہیں کہ کرونا کی کوئی حقیقت نہیں ہے اور اس کا مظاہرہ آپ شہروں کی سڑکوں پر دیکھ سکتے ہیں کہ لوگ کسی قسم کی احتیاطی تدابیر کی بغیر گھوم پھر رہے ہیں۔ اور دوسری قسم کے وہ لوگ ہیں جو طبی ماہرین کے مشوروں پر کان دھر رہے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس کا طویل المدت اثر یہ ہو گا کہ جو لوگ وائرس کی حقیقت کو تسلیم نہیں کر رہے، وہ مستقل خطرات سے دو چار رہیں گے اور جو لوگ اسے تسلیم کر رہے ہیں، وہ ضرورت سے زیادہ محتاط ہو جائیں گے اور یوں دونوں قسم کے لوگوں کا انداز زندگی آنے والے دنوں میں بدل جائے گا۔
انداز زندگی کس حد تک بدلے گا یہ تو آنے والا وقت ہی بتا سکتا ہے لیکن اس وقت غیر محتاط لوگ جو ہر معاشرے میں موجود ہیں بقیہ لوگوں کے لئے مسائل پیدا کر رہے ہیں۔