وہ کہتے ہیں کہ ’’جب آپ پاکستان جیسے اسلامی ملک میں توہین رسالت کے ملزم کے وکیل بنتے ہیں تو لوگ آپ کو بھی توہین رسالت کا ملزم گرداننا شروع کر دیتے ہیں۔ آپ کو ایک نفرت کی فضا کا سامنا کرنا پڑتا ہے، صرف کیس کے دوران نہیں بلکہ مستقل طور پر‘‘
پاکستان کی عدالت عظمیٰ نے گذشتہ ہفتے توہین مذہب کے مقدمے میں مسیحی خاتون آسیہ بی بی کو بری کئے جانے کے فیصلے کے خلاف نظرثانی کی اپیل مسترد کر دی، جس کے بعد انہیں تقریباً ایک عشرے بعد قید سے رہائی مل گئی۔
ذرائع ابلاغ میں چھپنے والی کچھ رپورٹوں میں کہا گیا ہے کہ وہ پاکستان سے باہر جا چکی ہیں، جب کہ اس بارے میں کئی غیر مصدقہ خبریں گردش میں ہیں۔
پاکستان کی ایک عدالت نے سن 2010میں آسیہ بی بی کو پھانسی کی سزا سنائی تھی۔ مگر، گذشتہ سال ملک کی سپریم کورٹ نے انھیں بری کر دیا تھا، جس کی بعد مختلف اسلام پسند مذہبی جماعتوں نے شدید احتجاج کیا تھا۔
سپریم کورٹ میں آسیہ کے کیس کی پیروی کرنے والے وکیل سیف الملوک کو گذشتہ سال خطرات کے پیش نظر کچھ عرصے کے لئے ملک سے باہر جلاوطنی اختیار کرنا پڑی۔ وہ حال ہی میں نظرثانی کی اپیل کی سماعت کے لئے پاکستان واپس آئے ہیں۔
’وائس آف امریکہ‘ سے بات کرتے ہوئے سیف الملوک نے سپریم کورٹ کے فیصلے پر اپنا رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’یہ ایک تاریخی فیصلہ ہے کہ ملک کی اعلیٰ عدالت نے ایک مسیحی خاتون کو پھانسی کی سزا سے بری کر دیا ہے، جب کہ دونوں زیریں عدالتوں نے انہیں پھانسی کی سزا دی تھی‘‘۔
ایک سوال کے جواب میں سپریم کورٹ کے وکیل نے بتایا کہ پھانسی کی سزا کے بعد جب آسیہ بی بی کی اپیل بھی خارج کر دی گئی، تو مسیحی برادری کے کچھ رہنما ان کے پاس آئے اور ان سے درخواست کی کہ وہ اس مقدمے کی پیروی کریں جس کی انہوں نے حامی بھر لی۔
وہ کہتے ہیں کہ ’’جب آپ پاکستان جیسے اسلامی ملک میں توہین رسالت کے ملزم کے وکیل بنتے ہیں تو لوگ آپ کو بھی توہین رسالت کا ملزم گرداننا شروع کر دیتے ہیں۔ آپ کو ایک نفرت کی فضا کا سامنا کرنا پڑتا ہے، صرف کیس کے دوران نہیں بلکہ مستقل طور پر‘‘ ۔
اس کے علاوہ انہوں نے کہا کہ توہین مذہب کے مقدمات میں عموماً انوسٹی گیشن پر معمور اہلکار بھی ملزمان کے خلاف تعصب رکھتے ہیں اور ضلعی عدالتوں میں مذہبی تنظیموں کی طرف سے بہت دباؤ ہوتا ہے۔ جج بھی خوف میں مبتلا ہوتے ہیں اس لئے وہاں پھانسی کے علاوہ اور کوئی فیصلہ ہو ہی نہیں سکتا۔
اِن سب مشکلات کو جانتے ہوئے پھر انہوں نے آسیہ بی بی کے مقدمے کی پیروی کرنے کی حامی کیوں بھری؟ سیف الملوک کہتے ہیں کہ ’’زندگی میں کچھ کام ایسے ہوتے ہیں جن کے لئے کسی نہ کسی کو آگے آنا پڑتا ہے۔ اس کے لئے، شاید میری قسمت میں تھا کہ میں آگے آؤں۔ میں آئندہ بھی ایسے مقدمات لڑتا رہوں گا‘‘۔
انہوں نے انکشاف کیا کہ اب وہ ایک دوسری مسیحی عورت شگفتہ کوثر۔۔۔ جسے توہین مذہب کے ایک مقدمے میں پھانسی کی سزا دی جا چکی ہے۔۔۔ اُس خاتون کا مقدمہ لڑنے کے بارے میں غور کر رہے ہیں۔
ٹوبہ ٹیک سنگھ سے تعلق رکھنے والی شگفتہ اور ان کے خاوند شفقت مسیح کو جو جسمانی طور پر معذور ہیں، سن 2013میں توہین مذہب کے الزامات میں گرفتار کیا گیا تھا۔ دونوں کو ایک عدالت نے اپریل 2014میں پھانسی کی سزا سنائی تھی۔
ان کا کہنا ہے کہ وہ زیادہ تر مسیحی ملزمان کے مقدمات کی ہی پیروی کرتے ہیں۔
اس کی وجہ بتاتے ہوئے سپریم کورٹ کے وکیل نے بتایا کہ ’’مسیحی لوگ بچارے زیادہ مظلوم لگتے ہیں۔ ان کے پاس پیسے بھی نہیں ہیں۔ سوشل سٹیٹس بھی نہیں۔ اس لئے انہیں زیادہ مدد کی ضرورت ہوتی ہے‘‘۔
وہ کہتے ہیں کہ ’’پاکستان میں توہین مذہب کے ملزمان کا دفاع کرنا پہلے اپنے آپ کو مارنا اور پھر ان کا دفاع کرنا ہوتا ہے‘‘۔
سیف الملوک کہتے ہیں کہ ’’یہ نہیں ہوسکتا کہ وہ اپنے تحفظ کے لئے کہیں چھپ جائیں۔ بس یہ ہو سکتا ہے کہ میں گھر سے باہر نہ جاؤں‘‘۔
بقول اُن کے، ’’چھپنے سے بہتر ہے کہ آپ اس بات کا لطف لیں کہ آپ انسانیت کی زبردست خدمت کر رہے ہیں‘‘۔ وہ کہتے ہیں کہ وہ اسی جذبے کے تحت کام کرتے ہیں۔
وائس آف امریکہ اردو کی سمارٹ فون ایپ ڈاؤن لوڈ کریں اور حاصل کریں تازہ ترین خبریں، ان پر تبصرے اور رپورٹیں اپنے موبائل فون پر۔ ڈاؤن لوڈ کرنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
اینڈرایڈ فون کے لیے: https://play.google.com/store/apps/details?id=com.voanews.voaur&hl=en
آئی فون اور آئی پیڈ کے لیے: https://itunes.apple.com/us/app/%D9%88%DB%8C-%D8%A7%D9%88-%D8%A7%DB%92-%D8%A7%D8%B1%D8%AF%D9%88/id1405181675