پاکستان کی عدالت عظمیٰ نے نجی ہاؤسنگ اسکیموں کے ایک بڑے ادارے 'بحریہ ٹاؤن' کے خلاف زمینوں کی خریدوفروخت سے متعلق تین مختلف مقدمات کا فیصلہ سناتے ہوئے ادارے کی طرف سے زمینوں کی خریدوفروخت کو کالعدم قرار دے دیا ہے۔
جسٹس اعجاز افضل خان کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے ان مقدمات کا فیصلے جاری کیے جن سے بینچ میں شامل جسٹس فیصل عرب تو متفق تھے لیکن تیسرے رکن جسٹس مقبول باقر نے اختلاف کیا۔
عدالت عظمیٰ نے ادارے کو بحریہ ٹاؤن کراچی منصوبے میں زمینوں کی فروخت یا الاٹمنٹ سے اس بنا پر روک دیا کہ یہ زمین سندھ حکومت سے غیر قانونی طریقے سے حاصل کی گئی تھی۔
فیصلے میں کہا گیا کہ "سرکاری زمین حکومت کے پاس واپس جائے گی اور جس زمین کے بدلے بحریہ ٹاؤن کو یہ زمین دی گئی تھی وہ بحریہ ٹاؤن کو واپس کی جائے۔"
جن لوگوں کو بحریہ ٹاؤن پہلے ہی یہاں زمین فروخت کر چکا ہے اس بابت عدالت عظمیٰ کے فیصلے میں کہا گیا کہ چونکہ یہاں بحریہ ٹاؤن کی طرف سے قابل ذکر ترقیاتی کام کیا جا چکا ہے اور سیکڑوں لگوں کو الاٹمنٹ ہو چکی ہے لہذا یہ ادارے کو فراہم کرنے کے لیے بورڈ آف ریونیو قانون کے مطابق نئے سرے سے اجازت دے۔
بینچ نے اس مقصد کے لیے چیف جسٹس آف پاکستان سے درخواست کی کہ وہ ایک بینچ تشکیل دے کر اس فیصلے کے نفاذ کو یقینی بنائیں۔
مزید برآں احتساب کے قومی ادارے "نیب" کو ہدایت کی بگئی ہے کہ وہ اس معاملے میں ملوث افراد کے خلاف چھان بین کر کے کارروائی کرے۔
بینچ نے فیصلے میں کہا کہ عدالت کو یہ بھی بتایا گیا کہ سرکاری اراضی ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی سمیت مختلف ہاؤسنگ سوسائیٹیوں کو بحریہ ٹاؤن کی نسبت زیادہ کم نرخ پر فروخت کی گئیں، لہذا اگر یہ درست ہے "تو ہم چیف جسٹس سے درخواست کرتے ہیں کہ اس کا از خود نوٹس لیا جائے۔"
اسی طرح بحریہ ٹاؤن کو اسلام آباد کے قریب واقع ایک علاقے میں محکمہ جنگلات کی زمین پر تجاوزات کا ذمہ دار بھی قرار دیا گیا اور عدالت عظمیٰ کے بینچ نے زمین کے اس تبادلے کو غیرقانونی قرار دے دیا۔
اس معاملے میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ بحریہ ٹاؤن نے اپنی ملکیت میں موجود 765 کنال اراضی محکمہ جنگلات کو دی تھی اور محکمے کی ایک ہزار کنال سے زائد زمین حاصل کی تھی۔
بینچ نے محکمہ جنگلات، محکمہ محصولات اور سروے آف پاکستان کو علاقے کی از سر نو حد بندی کرنے کا حکم بھی دیا۔
بینچ نے ایک تیسرے مقدمے میں نیو مری ڈویلپمنٹ پراجیکٹ پر بھی کام بند کرنے کا حکم دیا۔
اس منصوبے سے پر ماحولیات کے تحفظ کے لیے کام کرنے والوں کی طرف سے بھی کڑی تنقید دیکھنے میں آ چکی ہے۔